Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 121
وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً وَّ لَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلَا يُنْفِقُوْنَ
: اور نہ وہ خرچ کرتے ہیں
نَفَقَةً
: خرچ
صَغِيْرَةً
: چھوٹا
وَّلَا كَبِيْرَةً
: اور نہ بڑا
وَّلَا يَقْطَعُوْنَ
: اور نہ طے کرتے ہیں
وَادِيًا
: کوئی وادی (میدان)
اِلَّا
: مگر
كُتِبَ لَھُمْ
: تاکہ جزا دے انہیں
لِيَجْزِيَھُمُ
: تاکہ جزا دے انہیں
اللّٰهُ
: اللہ
اَحْسَنَ
: بہترین
مَا
: جو
كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
: وہ کرتے تھے (ان کے اعمال)
اور جو کوئی چھوٹا یا بڑا خرچ اللہ کی راہ میں کرتے ہیں اور جو وادی بھی وہ طے کرتے ہیں سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ عطا فرمائے
وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ط فَلوْلاَ نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فیِ الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْ ٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ ۔ ع (التوبہ : 122) (ضروری نہ تھا کہ صاحب ایمان سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے پس کیوں نہ نکلے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو خبر دار کرتے جب ان کی طرف لوٹ کر جاتے تاکہ وہ بھی بچتے رہیں۔ غیر مسلمانہ روش سے۔ ) ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ سورة توبہ نو ہجری کے اختتام پر نازل ہوئی ہے۔ ممکن ہے اس کے کچھ احکام دس ہجری کے آغاز میں نازل ہوئے ہوں۔ اس سورة میں وہ تمام باتیں زیر بحث لائی گئی ہیں جو مسلمانوں کی قومی اور ملی زندگی کے لیے نا گزیر تھیں اور وہ ہدایات بھی دی گئی ہیں جو جزیرہ عرب کو مرکز اسلام بنانے اور پھر اس کے استحکام کے لیے لازمی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ نو اور دس ہجری میں جو بعض خاص ضرورتیں پیدا ہوئیں ان سے بھی تعرض فرمایا گیا۔ ان ضرورتوں میں ایک بڑی اہم ضرورت جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ فتح ِ مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ کی بعثت مبارکہ کے آخری دو سالوں میں اسلام کے دائرے میں اسلام قبول کرنے والوں کا داخلہ تیز ہوگیا۔ فوج در فوج لوگ اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔ یہ بات اسلام کی وسعت کے پہلو سے تو بڑی حوصلہ افزا تھی لیکن اسلام کے دل و دماغ میں نفوز کے اعتبار سے اور اسلامی زندگی کی تعبیر کے حوالے سے متفکر کردینے والی بھی تھی۔ لوگ کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل تو ہو رہے تھے لیکن ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہ تھا۔ اس سے پہلے اعراب کی حد تک قرآن کریم آیت نمبر 97 میں اس کی طرف اشارہ بھی کرچکا تھا۔ بلکہ حقیقت میں بہت بڑی آگاہی دے چکا تھا کہ اعراب میں نفاق کا مرض اور اس کی شدت کا سبب ان کی دین سے بیخبر ی اور مرکز اسلام سے دوری ہے۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں و اضح انداز میں اس ضرورت کو پورا کرنے کا مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے اور انداز یہ اختیار کیا گیا ہے کہ علم دین سے آگاہی احکام سے واقفیت اور حقوق آشنائی کی حد تک تو ہر مسلمان پر فرض ہے کیونکہ ہر مسلمان پر جو عبادات فرض کی گئی ہیں۔ جو فرائض عائد کیے گئے ہیں۔ جو اوامرو نواہی دیئے گئے ہیں اور زندگی گزارنے کے احکام دیئے گئے اور آداب سکھائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک چیز کا جاننا انفرادی زندگی میں بھی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام مسلمان تمام کاموں سے یکسو ہو کر اللہ کے دین کو سیکھنے میں لگ جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے زندگی کی ان ذمہ داریوں کو جن کا تعلق بقائے حیات اور ضروریاتِ زندگی کے بہم پہنچانے سے ہے۔ ان کو بھی دین سے خارج نہیں کیا۔ بعض کو مباح ٹھہرایا اور بعض کو فرضِ کفایہ قرار دیا۔ ان کو یکسر چھوڑا نہیں جاسکتا۔ انسان کے لیے غذا ضروری ہے۔ تو کاشت کاری اور زراعت سے متعلق تمام ضروری باتوں کا جاننا بھی ضروری ہے۔ جسم کو صحت مند رکھنے اور بیمار کی شفا کے لیے علاج ضروری ہے۔ تو میڈیکل سائنس بھی ضروری ہے۔ موسم کی شدت سے بچنے کے لیے ایک گھر کا ہونا ضروری ہے۔ تو انجنئیر نگ کا علم بھی ضروری ہے۔ اسی کو فرض کفایہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ چند آدمیوں کے سیکھ لینے اور پڑھ لینے سے یہ ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں لیکن علم دین کی بیشتر باتوں کا تعلق انسان کے بنیادی فرائض سے ہے اگرچہ ان میں بعض احکام کی حیثیت فرض کفایہ کی بھی ہے۔ بنابریں ہونا یہ چاہیے تھا کہ دیہات مدینے کے مضافات اور دور پار کے شہروں کے رہنے والے تمام لوگ یکبارگی مدینے پہنچ جاتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں حکم دیا کہ مسلمانوں کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ غزوہ تبوک میں شرکت کی طرح سب نکل کھڑے ہوں۔ ان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ہر بڑے گروہ میں سے چند افراد ایسے ضرور نکلیں جو اللہ کے دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لیے مدینہ منورہ پہنچیں یا کسی ایسے شہر میں جائیں جہاں علم ِ دین کے حصول کی آسانیاں میسر ہوں اور پھر لوٹ کر اپنے لوگوں میں جائیں اور ان تک دین کی وہ فکر اور فہم پہنچائیں جس کو انھوں نے خود حاصل کیا ہے۔ اس سلسلے میں معارف القرآن کے مصنف محترم نے جو کچھ اپنی تفسیر میں لکھا ہے وہ یقینا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ ہم اسے یہاں نقل کیے دیتے ہے۔ طلبِ علم دین کا فرض ہونا اور اس کے آداب و فر ائض حضرت امام قرطبی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ آیت طلب ِعلمِ دین کی اصل اور بنیاد ہے اور غور کیا جائے تو اسی آیت میں علم دین کا اجمالی نصاب بھی بتلا دیا گیا ہے اور علم حاصل کرنیکے بعد عالم کے فرائض بھی اس لیے اس مضمون کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے۔ علم دین کے فضائل علمِ دین کے فضائل اور ثواب عظیم اور اس کے متعلقات پر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اس جگہ چند مختصر روایات نقل کی جاتی ہیں۔ ترمذی نے حضرت ابو الد دا ( رض) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ” جو شخص کسی راستے پر چلے جس کا مقصد علم حاصل کرنا ہو اللہ تعالیٰ اس چلنے کے ثواب میں اس کا راستہ جنت کی طرف کر دینگے اور یہ کہ اللہ کے فر شتے طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں اور یہ کہ عالم کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی مخلوقات اور پانی کی مچھلیاں دعا و استغفار کرتی ہیں اور یہ کہ عالم کی فضیلت کثرت سے نفلی عبادت کرنیوالے پر ایسی ہی جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت باقی سب ستاروں پر اور یہ کہ علماء انبیاء (علیہم السلام) کے وارث ہیں اور یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) سونے چاندی کی کوئی میراث نہیں چھوڑتے لیکن علم کی وراثت چھوڑتے ہیں تو جس شخص نے یہ وراثت ِ علم حاصل کرلی اس نے بڑی دولت حاصل کرلی “ (از قر طبی) اور دارمی نے اپنے مسند میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ ” رسول ﷺ سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے ایک عالم تھا جو صرف نماز پڑھ لیتا اور پھر لوگوں کو دین کی تعلیم دینے میں مشغول ہوجاتا تھا دوسرا دن بھر روزہ رکھتا اور رات کو عبادت میں کھڑا رہتا تھا ان دونوں میں کون افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ آدمی پر “ ( یہ روایت امام عبد البر نے کتاب جامع بیان بیان العلم میں سند کیساتھ حضرت ابوسعید خدری ( رض) سے نقل کی ہے۔ (قر طبی) اور رسول ﷺ نے فرمایا کہ ایک فقیہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عباد تگذاروں سے زیادہ قوی اور بھاری ہے (ترمذی عن ابن عباس ؓ از مظہری) اور رسول ﷺ نے فرمایا کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ جیسے مسجد یا دینی تعلیم کی عمارت یا رفاہِ عام کے ادارے دوسرے وہ علم جس سے اس کے بعد بھی لوگ نفع اٹھاتے رہیں ( مثلاً شاگرد عالم ہوگئے ان سے آگے لوگوں کو علم دین سکھانیکا سلسلہ چلتا رہا یا کوئی کتاب تصنیف کی جس سے اس کے بعد بھی لوگ فائدہ اٹھاتے رہے) تیسرے اولاد صالح جو اس کے لیے دعا اور ایصال ثواب کرتی رہے۔ (از قرطبی) علم دین کے فرضِ عین اور فر ضِ کفایہ کی تفصیل ابن عدی اور بہیقی نے بسند صحیح حضرت انس ( رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ (از مظہری) ” یعنی علم حاصل کرنا فرض ہے ہر ایک مسلمان پر “ یہ ظاہر ہے کہ کہ اس حدیث اور مذکورہ سابقہ احادیث میں علم سے مراد علم دین ہے دینوی علوم و فنون عام دنیا کے کاروبار کی طرح انسان کے لیے ضروری ہیں مگر ان کے وہ فضائل نہیں جو احادیث مذکورہ میں آئے ہیں پھر علم دین ایک علم نہیں بہت سے علوم پر مشتمل ایک جامع نظام ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر مسلمان مردو عورت اس پر قادر نہیں کہ ان سب علوم کو پورا حاصل کرسکے اس لیے حدیث… مذکور میں جو ہر مسلمان پر فرض فرمایا گیا ہے اس سے مراد علم دین کا صرف وہ حصہ ہے جس کے بغیر آدمی نہ فرائض ادا کرسکتا ہے نہ حرام چیزوں سے بچ سکتا ہے جو ایمان و اسلام کے لیے ضروری ہے باقی علوم کی تفصیلات قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل پھر ان سے نکالے ہوئے احکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ ہر مسلمان کی قدرت میں ہے نہ ہر ایک پر فرضِ عین ہے البتہ پورے عالم اسلام کے ذمہ فرض کفایہ ہے ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتوی لے کر سمجھ سکیں اور عمل کرسکیں اس لیے علم دین میں فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کی تفصیل یہ ہے کہ : فرضِ عین ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ اسلام کے عقائد کا علم حاصل کرے اور طہارت و نجاست کے احکام سیکھے۔ نماز، روزہ اور تمام عبادات جو شریعت نے فرض و واجب قرار دی ہیں ان کا علم حاصل کرے جن چیزوں کو حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان کا علم حاصل کرے جس شخص کے پاس بقدر نصاب مال ہو اس پر فرض ہے کہ زکوٰۃ کے مسائل و احکام معلوم کرے جس کو حج پر قدرت ہے اس کے لیے فرضِ عین ہے کہ حج کے احکام و مسائل معلوم کرے جس کو بیع و شراء کرنا پڑے یا تجارت و صنعت یا مزدوی و اجرت کے کام کرنے پڑیں اس پر فرضِ عین ہے کہ بیع و اجا رہ وغیرہ کے مسائل و احکام سیکھے جب نکاح کرے تو نکاح کے احکام و مسائل اور طلاق کے احکام و مسائل معلوم کرے غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کیا ہے ان کے احکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ علم دین کا نصاب قرآن حکیم نے اس جگہ علم دین کی حقیقت اور اس کا نصاب بھی ایک ہی لفظ میں بتلا دیا وہ ہے (لیتفقھوا فی الدین) یہ موقع بظاہر اسکا تھا کہ یہاں (یتعلمون الدین) کہا جاتا یعنی علم دین حاصل کریں مگر قرآن نے اس جگہ تعلم کا لفظ چھوڑ کر تفقہ کا لفظ اختیار فرماکر اس طرف اشارہ کردیا کہ علم دین کا محض پڑھ لینا کافی نہیں وہ تو بہت سے کافر یہودی نصرانی بھی پڑھتے ہیں اور شیطان کو سب سے زیادہ حاصل ہے بلکہ علم دین سے مراد دین کی سمجھ پیدا کرنا ہے یہی لفظہ تفقہ کا ترجمہ ہے اور یہ فقہ سے مشتق ہے فقہ کے معنی سمجھ بوجھ ہی کے ہیں یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ مج د کے صیغے سے (لیفقھوا الذین) یعنی تاکہ وہ دین کو سمجھ لیں نہیں فرمایا بلکہ (لیتفقھوا فی الذین) فرمایا جو باب تفعل سے ہے اس کے معنی میں محنت و مشقت کا مفہوم شامل ہے مراد یہ ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے میں پوری محنت و مشقت اٹھا کر مہارت حاصل کریں یہ بھی ظاہر ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ صرف اتنی بات سے پیدا نہیں ہوتی کہ طہارت نجاست یا نماز روزے زکوۃ حج کے مسائل معلوم کرے بلکہ دین کی سمجھ بوجھ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کے ہر قول و فعل اور حرکت و سکون کا آخرت میں اس سے حساب لیاجائے گا اس کو اس دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے دراصل اسی فکر کا نام دین کی سمجھ بوجھ ہے اسی لیے امام اعظم ابوحنیفہ ( رح) نے فقہ کی تعریف یہ کی ہے کہ انسان ان تمام کاموں کو سمجھ لے جن کا کرنا اس کے لیے ضروری ہے اور ان تمام کاموں کو بھی سمجھ لے جن سے بچنا اس کے لیے ضروری ہے آج کل جو علم فقہ مسائل جزئیہ کے علم کو کہا جاتا ہے یہ بعد کی اصطلاح ہے قرآن و سنت میں فقہ کی حقیقت وہی ہے جو امام اعظم ( رح) نے بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے دین کی کتابیں سب پڑھ ڈالیں مگر یہ سمجھ بوجھ پیدا نہ کی وہ قرآن و سنت کی اصطلاح میں عالم نہیں اس تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ علم دین حاصل کرنیکا مفہوم قرآن کی اصطلاح میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہے وہ جن ذرائع سے حاصل ہو وہ ذرائع خواہ کتابیں ہوں یا اساتذہ کی صحبت سب اس نصاب کے اجزا ہیں۔ علم دین حاصل کرنے کے بعد عالم کے فرائض اس جگہ قرآن کریم نے اس کو بھی ایک ہی جملہ میں پورا بیان فرما دیا ہے وہ ہے ( لیند روا قومھم) یعنی تاکہ وہ اپنی قوم کو اللہ کی نافرمانی سے ڈرائیں یہاں بھی یہ بات قابل نظر ہے کہ اس جملہ میں عالم کا فرض انذارِ قوم بتلایا ہے انذار کا لفظی ترجمہ ہم اردو میں ڈرانے سے کرتے ہیں مگر یہ اس کا پورا ترجمہ نہیں اردو زبان کی تنگی کی وجہ سے کوئی ایک لفظ اس کے پورے ترجمہ کو ادا نہیں کرتا حقیقت یہ ہے کہ ڈرانا کئی طرح کا ہوتا ہے ایک ڈرانا دشمن چور، ڈاکو یا کسی درندے یا زہریلے جانور سے ہے ایک ڈرانا وہ ہے جو باپ اپنی شفقت سے اولاد کو تکلیف دہ چیزوں جیسے آگ، زہریلے جانور مضر غذا سے ڈراتا ہے جس کا منشاء شفقت و محبت ہوتی ہے اس کا لب و لہجہ بھی کچھ اور ہی ہوتا ہے انذار اسی قسم کے ڈرانے کا نام ہے اسی لیے پیغمبروں اور رسولوں کو نذیر کا لقب دیا گیا ہے اور عالم کا یہ فر یضہ انذار درحقیقت وراثت نبوت ہی کا جز ہے جو نبص حدیث عالم کو حاصل ہوتی ہے۔ مگر یہاں قابل غور یہ ہے کہ انبیاء علہیم السلام کے دو لقب ہیں بشیر اور نذیر۔ نذیر کے معنی تو ابھی آپ معلوم کرچکے ہیں۔ بشیر کے معنی ہیں بشارت اور خوش خبری دینے والا۔ انبیاء علیہیم السلام کا ایک کام یہ بھی ہے کہ نیک عمل کرنے والوں کو بشارت سنائیں اس جگہ بھی اگرچہ صراحتاً ذکر اند از کا کیا گیا ہے مگر دوسری نصو ص سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم کا فرض یہ بھی ہے کہ نیک کام کرنیو الوں کو بشارت بھی سنائے لیکن اس جگہ صرف انذار کے ذکر پر اکتفاء کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کے ذمے دو کام ہیں ایک یہ کہ جو عمل اسکے لیے دنیا و آخرت میں مفید ہیں ان کو اختیار کرے دوسرے یہ کہ جو عمل اس کے لیے مضر ہیں ان سے بچے با تفاق علماء وعقلا ان دونوں کاموں میں سے دوسراکام سب سے مقدم اور اہم ہے اسی کو فقہاء کی اصطلاح میں جلبِ منفعت اور دفع مضرت کے دو لفظوں سے تعبیر کرکے دفع مضرت کو جلبِ منفعت سے مقدم قراردیا ہے اس کے علاوہ دفع مضرت میں ایک حیثیت سے جلبِ منفعت کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے کیونکہ جو کام انسان کے لیے مفید اور ضروری ہیں ان کا ترک بڑی مضرت ہے تو جو شخص مضرت اعمال سے بچنے کا اہتمام کریگا وہ اعمال ضروریہ کے ترک سے بچنے کا بھی اہتمام کریگا۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آجکل جو عموماً وعظ و تبلیغ بہت کم موثر ہوتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں انذار کے آداب نہیں ہوتے جس کے طرز بیان اور لب و لہجے سے شفقت و رحمت اور خیر خواہی مترشخ ہے مخاطب کو یقین ہو کہ اس کے کلام کا مقصد نہ مجھے رسوا کرنا ہے نہ بدنام کرنا نہ اپنے دل کا غبار نکالنا بلکہ یہ جس چیزکو میرے لیے مفید اور ضروری سمجھتا ہے وہ محبت کی وجہ سے مجھے بتلا رہا ہے اگر آج ہماری تبلیغ اور خلاف شرع امور کے مرتکب لوگوں کو اصلاح کی دعوت کا یہ طرز ہوجائے تو اسکا ایک نتیجہ تو قطعاً لازم ہی ہے کہ مخاطب کو ہماری گفتگو سے ضد پیدا نہیں ہوگی۔ وہ جواب دہی کی فکر میں پڑنیکے بجائے اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور انجام سوچنے کی طرف متوجہ ہوجائیگا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کبھی نہ کبھی اسکو قبول بھی کریگا اور دوسرا نتیجہ یہ لازمی ہے کہ کم از کم اس سے باہمی منافرت اور لڑائی جھگڑا پیدا نہیں ہوگا جس میں آج کل ہماری پوری قوم مبتلا ہے۔ آخر میں (لعلھم یحذرون) فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ عالم کا کام اتنا ہی نہیں کہ عذاب سے ڈرادیا بلکہ اس پر نظر رکھنا بھی ہے کہ اس کی تبلیغ و دعوت کا اثر کتنا اور کیا ہوا ایک دفعہ مٔوثر نہیں ہوئی تو بار بار کرتا ہے تاکہ اس کا نتیجہ یحذرون بر آمد ہو سکے یعنی قوم کا گناہوں سے بچنا۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
Top