Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 126
اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
اَوَ : کیا لَا يَرَوْنَ : وہ نہیں دیکھتے اَنَّھُمْ : کہ وہ يُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہیں فِيْ كُلِّ عَامٍ : ہر سال میں مَّرَّةً : ایک بار اَوْ : یا مَرَّتَيْنِ : دو بار ثُمَّ : پھر لَا يَتُوْبُوْنَ : نہ وہ توبہ کرتے ہیں وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں۔ پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں
اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلاَ ھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ (التوبہ : 126) (کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں۔ پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں) مخاطب کو دلیل سے قائل کرنے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ مخاطب کی حالت اور اس کی کیفیت کو دلیل کے طور پر پیش کیا جائے اور یہ وہ طریقہ ہے جس کے پیش پاء افتادہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اگر مخاطب ایسی دلیل کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے اور یا قصداً وہ معقولیت کی طرف آنے کے لیے تیار نہیں۔ منافقین سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ خود اپنی حالت پر غور کریں۔ وہ اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ سال میں متعدد دفعہ انہیں مختلف ایسی آزمائشوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ جن کا مقصد ان کے سامنے راہ راست کھولنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اگر وہ ذرا بھی اس ابتلا پر غور کرنے کی زحمت اٹھا تے۔ تو ان کے لیے حق کو سمجھنا دشوار نہ ہوتا۔ وہ ابھی تک اللہ کے رسول کی رسالت قرآن کریم کی حقانیت اور دین اسلام کی صداقت پر یکسو نہیں ہو سکے حالانکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مسلسل اسلام کا قافلہ قدم قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ ہر آنے والا دن اس کی کامیابی کی نوید بن کر آتا ہے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعہ ان کے نفاق کا پردہ کھول دیا جاتا ہے ان کی مجالس میں کہی ہوئی باتیں علی رؤوس الاشھاد بیان کردی جاتی ہیں۔ کبھی کسی جنگ پر نکلنے کا حکم آتا ہے۔ تو ان کا نفاق ان کے لیے زنجیرِ پا بن جاتا ہے۔ ان کے مصنوعی عذر مسلمانوں کو ان کے نفاق کی خبر دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کی عالی ظرفی اور کریم النفسی ان کے لیے پناہ بن جاتی ہے۔ تاکہ انھیں اپنی حالت کو سدہار نے کا موقع مل سکے۔ دشمنان دین سے ان کی وابستگی کوئی ایسا راز نہیں جس سے مسلمان واقف نہ ہوں۔ لیکن قرآن کریم ان کے طرف اشارے کر کے چھوڑ دیتا ہے اور انھیں تلقین کرتا ہے کہ تم اپنی اصلاح کرلو۔ تو درِ توبہ ابھی بھی تمہارے لیے کھلا ہے۔ لیکن یہ اپنی اصلاح کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہوتے۔ ہر آزمائش انہیں سنوارنے کی بجائے ان کے بگاڑ اور نا کامی کا سبب بنتی ہے۔ بجائے توبہ کی طرف آنے کے کفر کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ ان کے دلوں کی قساوت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے اور ان کی عقلیں ہر طرح کے تذکّر سے محروم ہوگئی ہیں اس لیے ان کا مقدر محرومی کے سوا کچھ نہیں۔
Top