Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 17
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
مَا كَانَ
: نہیں ہے
لِلْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکوں کے لیے
اَنْ
: کہ
يَّعْمُرُوْا
: وہ آباد کریں
مَسٰجِدَ اللّٰهِ
: اللہ کی مسجدیں
شٰهِدِيْنَ
: تسلیم کرتے ہوں
عَلٰٓي
: پر
اَنْفُسِهِمْ
: اپنی جانیں (اپنے اوپر)
بِالْكُفْرِ
: کفر کو
اُولٰٓئِكَ
: وہی لوگ
حَبِطَتْ
: اکارت گئے
اَعْمَالُهُمْ
: ان کے اعمال
وَ
: اور
فِي النَّارِ
: جہنم میں
هُمْ
: وہ
خٰلِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
مشرکین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ اس حال میں کہ وہ خود انے نفسوں پر کفر کے گواہ ہیں۔ ان میں لوگوں کے سارے اعمال برباد ہوگئے اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔
مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ بِالْکُفْرِطاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ج وَفِی النَّارِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ اِنَّمَا یَعْمُرُمَسٰجِدَاللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِوَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ (التوبۃ : 17، 18) (مشرکین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں اس حال میں کہ وہ خود اپنے نفسوں پر کفر کے گواہ ہیں، ان لوگوں کے سارے اعمال برباد ہوگئے اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں۔ اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور روز آخرت پر اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے سو امید ہے کہ وہ لوگ راہ یاب ہوجائیں۔ ) مساجد کی تولیت کن لوگوں کا حق ہے ؟ سابقہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین عرب سے براءت اور ترک تعلق کا اعلان کیا گیا تھا جو نقض عہد کے مجرم تھے یا جن سے کوئی معاہدہ نہ تھا، ان سے آئندہ تمام معاہدوں سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا اور جن سے معاہدوں کی مدت باقی تھی ان سے مدت گزرجانے کے بعد براءت کا اعلان کیا گیا۔ اس پر بعض منافقین یا نئے اسلام لانے والوں میں بےچینی پیدا ہوئی کہ آخر اتنا سخت اعلان اور ترک تعلق کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ چناچہ گزشتہ آیات میں تفصیل سے اس کا جواب دیا گیا اور تاریخ کے آئینہ میں مشرکین کے اصل کردار کو نمایاں کرکے دکھایا گیا۔ پیش نظر آیات میں اعتراضات کا جواب دینے کے بعد مزید ایک اعلان کیا جارہا ہے لیکن اس کا انداز ایسا ہے جس میں بیک وقت ترک تعلق اور براءت کا اعلان بھی ہے اور ساتھ ہی اس کو دلیل سے ثابت بھی کیا گیا ہے۔ اس اعلان کو سمجھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیے وہ یہ کہ فتحِ مکہ کے بعد اگرچہ مکہ معظمہ اور جنگ حنین کے بعد مکہ معظمہ کے گردوپیش میں بھی اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی لیکن مشرکین پر کوئی قدغن عائد نہیں کی گئی تھی۔ وہ آزادانہ بیت اللہ کے طواف کے لیے آتے تھے اور اپنے طریقے سے بیت اللہ کے ادب واحترام کے تقاضوں کو بروئے کارلاتے لیکن ساتھ ساتھ بعض ایسی حرکتیں بھی کرتے تھے جن کا ارتکاب بیت اللہ کے سامنے نہایت بےشرمی اور کفر کی بات ہے۔ لیکن اسلام نے نہایت رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے رمضان آٹھ (8) ہجری سے لے کر ذی الحج نو (9) ہجری تک ان تمام منکرات کو برداشت کیا اور عربوں کو زیادہ سے زیادہ اس بات کا موقع دیا کہ وہ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔ یہ بات کہ ان پر کوئی قدغن عائد نہیں کی گئی تھی اس کی دلیل ذی الحج نو (9) ہجری کو حضرت علی ﷺ کی زبان سے جو اعلان کرایا گیا تھا اس میں موجود ہے۔ اس میں ایک تو ان سے ترک تعلق کا اعلان ہے اور دوسرا یہ فرمایا گیا ہے۔ لایحجن بعد العام مشرکین ولا یطوفن بالبیت عریان ” اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا اور کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف نہ کرسکے گا “ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس اعلان سے پہلے فتحِ مکہ کے بعد بھی مشرکین کو اپنے طریقے سے حج کرنے اور ننگے طواف کرنے سے روکا نہیں گیا۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرکین میں سے اگر کسی قبیلے کے افراد بیت اللہ کی کوئی خدمت انجام دیتے تھے تو ان سے وہ خدمت بھی واپس نہیں لی گئی بلکہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نرمی اور دل جوئی کا سلوک کیا گیا تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ لیکن اس آیت کریمہ میں نہائیت دھیمے لہجے میں ایک ایسی مضبوط بات فرمائی گئی ہے جس کا انکار کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ فرمایا گیا ہے کہ مشرکین کو ہرگز اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے گھر کو آباد کریں۔ آباد کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا انتظام وانصرام کریں یا انتظامی معاملات میں دخل دیں اور آبادی کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے گھر میں عبادت کریں اور اس کا طواف کریں۔ یہی حقیقت میں اس کی آبادی ہے۔ تو مشرکین کے لیے ایسی عبادت جس میں شرک کی آمیزش ہو اور برہنہ طواف جو بےحیائی کا کھلا اظہار ہے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اللہ کا یہ گھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کے مرکز کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ جس میں کسی طرح کے شرک کی گنجائش نہیں تھی۔ اسی طرح اس گھر کے سائے میں کوئی ایسی حرکت نہیں کی جاسکتی جو اللہ کے احکام کے خلاف ہو اور یہ بات مسلّم ہے کہ شرم وحیا کی پاسداری ہر پیغمبر کی شریعت میں بنیادی احکام میں موجود رہی ہے۔ حیا کو نصف ایمان کے طور پر ہر شریعت کا جز بنایا گیا ہے تو جو اللہ کا گھر مرکز توحید کے طور پر بنایا گیا ہو اور جس گھر سے ایک ایسی امت اٹھائی جانے والی تھی جس نے دنیا کے بیشتر حصے پر اللہ کے دین کو نافذ کرنا ہے، اس گھر کے سامنے ایسی کسی حرکت کا جواز نہیں جس سے اس گھر کی اصل حقیقت کو نقصان پہنچتاہو اور مشرکین چونکہ اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے سراسر اس حقیقت کی ضد ہیں، انھیں اس بات کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کے اس گھر پر قابض رہیں یا اس کے انتظام وانصرام کے متولی رہیں کیونکہ کسی بھی ادارے کی سربراہی یا اس کی خدمت کا حق اسے دیاجاسکتا ہے جو اس کے اصل مقصد کو بروئے کار لانے میں مخلص ہو۔ لیکن جس کا حال یہ ہو کہ ادارہ جس مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا ہے وہ اس مقصد کے بالکل برعکس اس ادارے کو چلانا چاہے تو دنیا کا کوئی شخص اس کا انتظام وانصرام اس کے ہاتھ میں دینے کی کبھی سفارش نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی شخص تعلیمی ادارے کو سٹیڈیم میں تبدیل کردے اور دعویٰ یہ کرے کہ میں اس کا سربراہ ہوں اور مجھے ایسا کرنے کا حق ہے تو ہر شخص یہ کہے گا کہ تم نے تعلیمی ادارے کے اصل مقصد سے ہی بغاوت کردی ہے تمہاری سربراہی تو کجا تمہیں تو اس کے قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح جو شخص اللہ کی مسجد کو بت خانے میں تبدیل کردے اور اس میں انسانیت برہنہ ہو کر رہ جائے تو خدا لگتی کہیے ایسے لوگوں کا اس مسجد سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ یہی بات یہاں فرمائی جارہی ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ تم نے اس گھر کی مرمت کی، تم نے حج کے لیے آنے والوں کی خدمت بھی کی، لیکن تم چونکہ اس گھر کے اصل مقصد تعمیر سے انحراف کرچکے ہو اس لیے تمہیں اس کا انتظام چلانے کا کوئی حق نہیں۔ قریش کی نااہلی کی دلیل اس پر دلیل دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا گھر مرکز توحید ہے اور ہر آنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ اس گھر میں اللہ کی بندگی بجالائے لیکن قریش اور دوسرے مشرکین نے جو کچھ اس گھر میں کیا ہے یا کررہے ہیں وہ خود ان کے کفر اور شرک پر گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ (360) بت لاکر رکھے پھر باقاعدہ ان کی پوجا کی۔ اپنے معمولات سے کعبہ کو شرک کا مرکز بنا کر رکھ دیا۔ ان کے اعمال میں سے ایک ایک عمل پکارتا ہے کہ ان کا اللہ کی بندگی اور توحید سے دورکا بھی رشتہ نہیں اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ مشرکینِ عرب اپنی قومی شناخت میں باقی قوموں سے نہایت مختلف واقع ہوئے تھے۔ باقی قوموں میں کوئی قوم ایسی نہیں جو شرک کا ارتکاب نہ کرتی ہو۔ عیسائی تین خدائوں کے دعویدار ہیں۔ ہندوئوں کے خدائوں کا کوئی شمار نہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں میں مہاتما بدھ کی حیثیت خدا اور شریک خدا سے کم نہیں۔ یہود بھی حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ باایں ہمہ ! ان قوموں یا ان اہل مذاہب میں سے کسی کو آپ مشرک کہہ کر پکاریں تو وہ آپ سے لڑنے پر آمادہ ہوجائے گا کیونکہ وہ شرک کرنے کے باوجوداپنے آپ کو مشرک کہلوانہ پسند نہیں کرتے اپنے شرک کو تاویل کے پردے میں لپیٹ کر دوسرے ناموں سے تعبیر کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن مشرکینِ عرب کا عجیب حال تھا کہ وہ اپنے آپ کو مشرک کہلانا نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ اس پر فخر کرتے تھے کہ انھوں نے شرک کو بطور دین اور عقیدہ کے اختیار کررکھا تھا۔ یہ ان کے تصور الوہیت کا ایک غیر منفک حصہ تھا۔ ایسے لوگ جو توحید سے اس حد تک بیزار ہوں انھیں آخر بیت اللہ جیسے مرکز توحید کے متولی ہونے کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ کفر کے ساتھ نیکیاں قبول نہیں کی جاتیں رہی یہ بات کہ انھوں نے ہمیشہ بیت اللہ سے عقیدت کا اظہار کیا اس کی تعمیر اور مرمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حجاج کی ہمیشہ خدمت کی۔ کیا یہ نیکیاں ان کے کسی کام نہیں آئیں گی ؟ وہ انھیں نیکیوں کو توشہ آخرت سمجھتے تھے اور آج بھی بہت سے لوگ ہیں کہ رفاہی کاموں اور لوگوں کے بھلے کے کام کرنے کو آخرت میں نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ غیر مسلموں میں کئی ایسے لوگ گزرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جنھوں نے لوگوں کی بھلائی کے لیے بہت سے کام کیے۔ تعلیمی ادارے قائم کیے، ہسپتال بنائے یا اور اس طرح کے کام ہیں جنھیں دیکھ کر لوگوں کو گمان ہوتا ہے کہ یہ لوگ جنت میں کیوں نہیں جائیں گے ؟ ان کی تو ضرور بخشش ہونی چاہیے۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں اپنے مخصوص انداز میں مختصر جواب دیا ہے۔ جو شاہانہ کلام کی شان ہوتی ہے۔ بادشاہ اپنی بات کی دلیل نہیں دیتے بلکہ بتادیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا اور یہی بات بادشاہ کے وفاداروں کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ان کے اس طرح کے خدمت کے تمام کام ضائع ہوگئے۔ یہ اللہ کے یہاں کسی صلہ کے مستحق نہیں ہوں گے یہ انجام کے اعتبار سے ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے سوال پر کسی حد تک تفصیل سے کام لیا۔ حضرت عائشہ ( رض) نے پوچھا کہ ابن جدعان جو عرب میں بھلائی کے کام کرنے میں معروف تھا اور زندگی بھر لوگوں کے کام آتا رہا، کیا اس کے ان کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت نہیں فرمائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اس نے کبھی اپنے اللہ سے یہ نہیں کہا تھا کہ یا اللہ ! مجھے بخش دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک انسان کو اپنی عبدیت اور اللہ کے معبود ہونے، اپنے مملوک ہونے اور اللہ کے مالک ہونے کا اعتراف نہیں ہوتا اور وہ اس کے احکام پر عمل کرنا لازمی سمجھ کر اپنی غلطیوں کے لیے اللہ سے معافی نہیں مانگتا اور اپنی بخشش کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشتا کیونکہ سب سے بنیادی بات اللہ کی اور اپنی حیثیت کا اعتراف ہے۔ جسے یہ اعتراف میسر نہیں اسے اللہ سے کسی طرح کی امید رکھنے کا بھی حق نہیں۔ جس طرح ایک شخص ملک کے حکمران کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اس کا محکوم نہیں سمجھتالیکن اپنے طور پر لوگوں کے بھلے کے کام کرتا ہے بہت سی اچھائیاں اس سے ظہور پذیر ہوتی ہیں تو دنیا کا کوئی حکمران اس کی اچھائیوں کو دیکھتے ہوئے حکومت کے انکار جیسے جرم کو برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ اللہ کا کائنات کا مالک ہونا، انسانوں کا خالق ومالک اور معبود ہونا اور انسان کا اللہ کا بندہ ہونا، اس قدر واضح ہے کہ کائنات کا پتہ پتہ اس پر دلیل ہے اور پھر انبیاء کی آمد اور کتب ہدایت کے نزول نے اسے اور زیادہ محکم بنادیا ہے۔ اس کے باوجود اللہ کا انکار، اس کے احکام کا انکار، اس کی ذات وصفات سے استہزاء، اس کی دی ہوئی زندگی اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اسی سے تنفر کا اظہار، یہ ایک ایسا جرم ہے جسے اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں فرماتے۔ اس لیے فرمایا کہ ایسے لوگ ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ مساجد کو جمع لانے کا سبب اس آیت کریمہ میں مساجد کو جمع لایا گیا ہے کیونکہ مساجد، مسجد کی جمع ہے حالانکہ مراد اس سے ” مسجد حرام “ ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس کے جمع لانے سے شاید اس طرف اشارہ ہے کہ مسجد حرام کا معاملہ تنہا مسجد حرام ہی کا نہیں بلکہ تمام مساجدِ الہٰی کا معاملہ ہے کیونکہ تمام مسجدیں مسجد حرام کی بیٹیاں ہیں۔ تمام مساجد کا اصل مرکزومحور اور سب کا قبلہ بیت اللہ ہے۔ اس لیے وہاں اگر کوئی غلط روایت پنپتی ہے تو باقی مساجد پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ہدایت وسعادت کا سارا ڈھانچہ بگڑ کر رہ جاتا ہے اور دوسرا شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مسجد حرام کا متولی ہونا کسی کافر اور مشرک کے لیے جائز نہیں اسی طرح کسی مسجد کا انتظام بھی کسی کافر اور مشرک کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ردالمختار، شامی اور مراغی جیسی کتابوں میں فقہا نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کسی مسجد یا کسی اسلامی وقف کا متولی اور منتظم کافر نہیں ہوسکتا۔ ہاں مسجد کی تعمیر میں کافر سے کام لیا جاسکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ مسلمانوں میں پرہیزگا رلوگ مسجدوں کی تعمیر کریں۔ اس طرح اگر کوئی غیر مسلم ثواب سمجھ کر مسجد بنادے یا مسجد بنانے کے لیے مسلمانوں کو چندہ دے دے تو اگر اس کا کاروبار خنزیر، سو دیا خمر وخمار جیسے محرمات سے متعلق نہیں تو اس سے چندہ لیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے کسی دینی یا دنیوی نقصان یا الزام یا آئندہ اس پر قبضہ کرلینے کا خطرہ نہ ہو۔ مسجدوں کو آباد رکھنے والوں کی صفات دوسری آیت کریمہ میں ان لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ کے گھروں کا آباد کرسکتے ہیں اور انھیں حق ہے کہ اللہ کے گھروں کو آباد کریں یعنی اللہ کے گھروں کے متولی بنیں، ان کے انتظامی معاملات کے کفیل ہوں اور خاص طور پر مسجد حرام کا متولی ہونا اور اس کے انتظامات کا ذمہ دار ہونا ان لوگوں کو زیب دیتا ہے جن میں یہ صفات پائی جاتی ہوں جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہیں۔ اب ہم آیت میں بیان کردہ صفات کو اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں۔ 1 اللہ اور آخرت پر ایمان : اللہ کے گھروں کو وہ آباد کرسکتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں۔ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی ذات کو اس طرح مانتے ہوں جس طرح اسے ماننے کا حق ہے۔ اس کی ان صفات پر یقین رکھتے ہوں جو قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہیں۔ ایمان کا معنی ہوتا ہے، مان لینا اور یقین کرنا۔ یہی وہ یقین ہے جسے دل کی تصدیق بھی کہا جاتا ہے اور پھر اللہ کی ذات کو اس طرح ماننا کہ جس میں کسی شرک کی آمیزش ہو، نہ کسی دوسرے خدا کے تصور کا کوئی جواز ہو، نہ اس کی ان صفات میں جو اس کے ساتھ مخصوص ہیں کسی اور کو شامل کرنے کی جسارت ہو۔ جب آدمی اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ کا علم بہت وسیع ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہر کام کرنے والا اس کی نگاہوں میں ہے۔ تو اسے کبھی یہ وہم بھی نہ ہو کہ میرا کوئی کام اللہ سے مخفی سے رہ سکتا ہے، میری کوئی دعا اللہ کے ہاں سنی نہیں جاتی، میرے دل میں آنے والا کوئی خیال اس سے مخفی رہ سکتا ہے، میرا لوگوں سے کوئی معاملہ اس کے علم میں آئے بغیر رہ سکتا ہے۔ وہ اتنی باخبر ذات ہے کہ صحرا میں گرنے والا درخت کا پتہ اس کی نظروں سے دور نہیں رہتا۔ کوئی رطب ویابس چیز ایسی نہیں جو اس کے علم میں نہ ہو۔ اسی طرح جب وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ کی قدرتیں بےپناہ ہیں تو اسے یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ جب اپنے ماننے والوں کو امید دلاتا ہے کہ تم اگر اپنا آپ میرے دین کے لیے وقف کردوگے تو میں تمہاری قوت بن جاؤں گا، تمہاری پشت پناہی کروں گا، تمہیں کفر پر غالب رکھوں گا اور تمہیں دشمن کے سامنے کبھی ذلیل نہیں ہونے دوں گا شرط صرف یہ ہے کہ تم اللہ سے بےوفائی نہ کرنا، اس کے توکل میں کمی نہ کرنا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنا۔ اسی طرح جب ایک مومن یہ مانتا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں تو اسے پھر اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ میری بندگی میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ میرا سر اس کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ میرے جسم وجان کی تمام رعنائیاں اسی کے لیے وقف ہیں۔ میری تمام صلاحیتیں اس کے دین کی بالا دستی کے لیے صرف ہوں گی۔ مختصر یہ کہ اس پر ایمان لانے کا اصل جوہر یہ ہے کہ اس کی صفات پر مکمل یقین، اس کے وعدوں پر حتمی ایقان، اس کے دئیے ہوئے آئین و قانون کے مقابلے میں ہر وضعی آئین و قانون کو اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں حاکمانہ حیثیت سے قبول کرنے سے انکار اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت پر یقین اس کا لازمی حصہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن اس بات پر پختہ یقین رکھے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب مجھے اپنے ہر قول وفعل کا حساب دینا ہوگا۔ اگر میں جواب دہی میں کامیاب ٹھہرا تو جنت میرا مسکن ہوگا اور اگر اس میں ناکامی ہوئی تو یہ وہ نامرادی ہے جس سے کوئی چھٹکارا نہیں دلاسکتا۔ آپ نے دیکھا کہ اس آیت میں اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر ایمان کا ذکر ہے۔ لیکن اللہ کے رسول پر ایمان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس سے بظاہر ایک غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید نجات کے لیے اللہ اور آخرت پر ایمان کافی ہے ہر رسول کو ماننا ضروری نہیں۔ لیکن اگر ایمان باللہ کا صحیح مفہوم سمجھ لیا جائے تو اس غلط فہمی کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو اللہ پر ایمان کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ آدمی دل سے اس کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول پر ایمان لانا اللہ پر ایمان لانے میں داخل ہے۔ 2 اقامتِ صلوٰۃ : اقامتِ صلوٰۃ درحقیقت ایمان باللہ کی عملی تصویر و تعبیر ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ اللہ پر ایمان لانے والے شخص کا حقیقی روپ کیا ہے، تو وہ ایک ایسے مومن کو دیکھے جو نماز کو واقعی ویسے ہی پڑھتاہو جیسے نماز پڑھنے کا حق ہے۔ جب وہ اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت باندھے تو اہل دنیا کی ساری عظمتیں اس کے سامنے ڈھیر ہوجائیں۔ تخت وتاج کی کوئی قیمت اس کی نگاہوں میں نہ رہے۔ وہ جب ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہو تو اس کا انگ انگ اللہ کی غلامی کا اقرار کرے۔ اس کی زبان اللہ کی حمد وثنا میں زمزمہ سنج ہو۔ وہ جھکے یا اٹھے ہر موقع پر اللہ کی کبریائی کا ترانہ اس کے لبوں پر ہو۔ وہ اپنی زندگی کا سارا سرمایہ اللہ کی کبریائی کے سامنے ڈھیر کردے۔ جو شخص دن میں پانچ مرتبہ ہر بڑائی سے انکار اور اللہ کی عظمت اور بڑائی کا اقرار اس طرح کرے کہ خشوع خضوع کی لہریں اس کے دل و دماغ سے اٹھیں اور چہرے پر نور بن کر پھیل جائیں یہی وہ زندگی ہے جو انسانیت کے لیے قابل فخر ہے۔ 3 ایتائے زکوٰۃ : انسانی زندگی کا بیشتر حصہ معاملات سے عبارت ہے اور معاملات کا فعال حصہ مالیات سے تعلق رکھتا ہے جس طرح انسانی صلاحیتیں اللہ کی اطاعت و بندگی میں صرف ہونی چاہئیں، اسی طرح اس کے تمام مالی معاملات شریعت کی ان حدود وقیود سے چھن کر گزرنے چاہئیں اور ایک مومن کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ مال و دولت، دولت کے مالک کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی ملکیت اور اس کے پاس امانت ہے۔ آدمی جن صلاحیتوں سے کام لے کر دولت کماتا ہے، وہ اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ اس کے علاوہ دولت کے دیگر وسائل وہ بھی اللہ کی دین ہیں۔ جب تک مالی معاملات میں تطہیر نہ ہو اور انسان اپنے معاملات پر اللہ کی نگرانی کا یقین نہ رکھے اور دولت کی کمی بیشی میں اس کو مؤثرنہ مانے اس وقت تک انسانی زندگی کا بیشتر حصہ تقویٰ کی دولت سے محروم رہتا ہے۔ 4 وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ ” وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا “: اللہ کے گھرچون کہ اسلامی تعلیم و تربیت کے مرکز ہیں وہیں سے توحید کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔ ڈر ایک تو وہ کیفیت ہے جو انسان کسی ڈرائونی چیز سے اپنے اوپر محسوس کرتا ہے۔ وہ تو انسانی فطرت ہے، یہاں وہ مراد نہیں۔ یہاں ڈر سے مراد وہ ڈر ہے جس کی وجہ سے آدمی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا۔ اللہ کے احکام کی اطاعت میں وہ کسی خطرے کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اللہ کے دین کی سربلندی اس کی عزت کے دفاع اور ملک وملت کے دفاع کے لیے لڑنا ناگزیر ہوجائے تو اسے ساری دنیا سے ٹکرانے میں بھی تأمل نہیں ہوتا۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اللہ کے گھروں کو آباد رکھنے کا حق رکھتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کے فضل و کرم سے اپنی منزل تک کامیابی اور کامرانی سے پہنچیں گے۔
Top