Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 17
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے اَنْ : کہ يَّعْمُرُوْا : وہ آباد کریں مَسٰجِدَ اللّٰهِ : اللہ کی مسجدیں شٰهِدِيْنَ : تسلیم کرتے ہوں عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے اوپر) بِالْكُفْرِ : کفر کو اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال وَ : اور فِي النَّارِ : جہنم میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
مشرکین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ اس حال میں کہ وہ خود انے نفسوں پر کفر کے گواہ ہیں۔ ان میں لوگوں کے سارے اعمال برباد ہوگئے اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔
مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ بِالْکُفْرِطاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ج وَفِی النَّارِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ اِنَّمَا یَعْمُرُمَسٰجِدَاللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِوَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ (التوبۃ : 17، 18) (مشرکین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں اس حال میں کہ وہ خود اپنے نفسوں پر کفر کے گواہ ہیں، ان لوگوں کے سارے اعمال برباد ہوگئے اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں۔ اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور روز آخرت پر اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے سو امید ہے کہ وہ لوگ راہ یاب ہوجائیں۔ ) مساجد کی تولیت کن لوگوں کا حق ہے ؟ سابقہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین عرب سے براءت اور ترک تعلق کا اعلان کیا گیا تھا جو نقض عہد کے مجرم تھے یا جن سے کوئی معاہدہ نہ تھا، ان سے آئندہ تمام معاہدوں سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا اور جن سے معاہدوں کی مدت باقی تھی ان سے مدت گزرجانے کے بعد براءت کا اعلان کیا گیا۔ اس پر بعض منافقین یا نئے اسلام لانے والوں میں بےچینی پیدا ہوئی کہ آخر اتنا سخت اعلان اور ترک تعلق کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ چناچہ گزشتہ آیات میں تفصیل سے اس کا جواب دیا گیا اور تاریخ کے آئینہ میں مشرکین کے اصل کردار کو نمایاں کرکے دکھایا گیا۔ پیش نظر آیات میں اعتراضات کا جواب دینے کے بعد مزید ایک اعلان کیا جارہا ہے لیکن اس کا انداز ایسا ہے جس میں بیک وقت ترک تعلق اور براءت کا اعلان بھی ہے اور ساتھ ہی اس کو دلیل سے ثابت بھی کیا گیا ہے۔ اس اعلان کو سمجھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیے وہ یہ کہ فتحِ مکہ کے بعد اگرچہ مکہ معظمہ اور جنگ حنین کے بعد مکہ معظمہ کے گردوپیش میں بھی اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی لیکن مشرکین پر کوئی قدغن عائد نہیں کی گئی تھی۔ وہ آزادانہ بیت اللہ کے طواف کے لیے آتے تھے اور اپنے طریقے سے بیت اللہ کے ادب واحترام کے تقاضوں کو بروئے کارلاتے لیکن ساتھ ساتھ بعض ایسی حرکتیں بھی کرتے تھے جن کا ارتکاب بیت اللہ کے سامنے نہایت بےشرمی اور کفر کی بات ہے۔ لیکن اسلام نے نہایت رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے رمضان آٹھ (8) ہجری سے لے کر ذی الحج نو (9) ہجری تک ان تمام منکرات کو برداشت کیا اور عربوں کو زیادہ سے زیادہ اس بات کا موقع دیا کہ وہ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔ یہ بات کہ ان پر کوئی قدغن عائد نہیں کی گئی تھی اس کی دلیل ذی الحج نو (9) ہجری کو حضرت علی ﷺ کی زبان سے جو اعلان کرایا گیا تھا اس میں موجود ہے۔ اس میں ایک تو ان سے ترک تعلق کا اعلان ہے اور دوسرا یہ فرمایا گیا ہے۔ لایحجن بعد العام مشرکین ولا یطوفن بالبیت عریان ” اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا اور کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف نہ کرسکے گا “ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس اعلان سے پہلے فتحِ مکہ کے بعد بھی مشرکین کو اپنے طریقے سے حج کرنے اور ننگے طواف کرنے سے روکا نہیں گیا۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرکین میں سے اگر کسی قبیلے کے افراد بیت اللہ کی کوئی خدمت انجام دیتے تھے تو ان سے وہ خدمت بھی واپس نہیں لی گئی بلکہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نرمی اور دل جوئی کا سلوک کیا گیا تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ لیکن اس آیت کریمہ میں نہائیت دھیمے لہجے میں ایک ایسی مضبوط بات فرمائی گئی ہے جس کا انکار کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ فرمایا گیا ہے کہ مشرکین کو ہرگز اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے گھر کو آباد کریں۔ آباد کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا انتظام وانصرام کریں یا انتظامی معاملات میں دخل دیں اور آبادی کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے گھر میں عبادت کریں اور اس کا طواف کریں۔ یہی حقیقت میں اس کی آبادی ہے۔ تو مشرکین کے لیے ایسی عبادت جس میں شرک کی آمیزش ہو اور برہنہ طواف جو بےحیائی کا کھلا اظہار ہے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اللہ کا یہ گھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کے مرکز کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ جس میں کسی طرح کے شرک کی گنجائش نہیں تھی۔ اسی طرح اس گھر کے سائے میں کوئی ایسی حرکت نہیں کی جاسکتی جو اللہ کے احکام کے خلاف ہو اور یہ بات مسلّم ہے کہ شرم وحیا کی پاسداری ہر پیغمبر کی شریعت میں بنیادی احکام میں موجود رہی ہے۔ حیا کو نصف ایمان کے طور پر ہر شریعت کا جز بنایا گیا ہے تو جو اللہ کا گھر مرکز توحید کے طور پر بنایا گیا ہو اور جس گھر سے ایک ایسی امت اٹھائی جانے والی تھی جس نے دنیا کے بیشتر حصے پر اللہ کے دین کو نافذ کرنا ہے، اس گھر کے سامنے ایسی کسی حرکت کا جواز نہیں جس سے اس گھر کی اصل حقیقت کو نقصان پہنچتاہو اور مشرکین چونکہ اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے سراسر اس حقیقت کی ضد ہیں، انھیں اس بات کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کے اس گھر پر قابض رہیں یا اس کے انتظام وانصرام کے متولی رہیں کیونکہ کسی بھی ادارے کی سربراہی یا اس کی خدمت کا حق اسے دیاجاسکتا ہے جو اس کے اصل مقصد کو بروئے کار لانے میں مخلص ہو۔ لیکن جس کا حال یہ ہو کہ ادارہ جس مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا ہے وہ اس مقصد کے بالکل برعکس اس ادارے کو چلانا چاہے تو دنیا کا کوئی شخص اس کا انتظام وانصرام اس کے ہاتھ میں دینے کی کبھی سفارش نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی شخص تعلیمی ادارے کو سٹیڈیم میں تبدیل کردے اور دعویٰ یہ کرے کہ میں اس کا سربراہ ہوں اور مجھے ایسا کرنے کا حق ہے تو ہر شخص یہ کہے گا کہ تم نے تعلیمی ادارے کے اصل مقصد سے ہی بغاوت کردی ہے تمہاری سربراہی تو کجا تمہیں تو اس کے قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح جو شخص اللہ کی مسجد کو بت خانے میں تبدیل کردے اور اس میں انسانیت برہنہ ہو کر رہ جائے تو خدا لگتی کہیے ایسے لوگوں کا اس مسجد سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ یہی بات یہاں فرمائی جارہی ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ تم نے اس گھر کی مرمت کی، تم نے حج کے لیے آنے والوں کی خدمت بھی کی، لیکن تم چونکہ اس گھر کے اصل مقصد تعمیر سے انحراف کرچکے ہو اس لیے تمہیں اس کا انتظام چلانے کا کوئی حق نہیں۔ قریش کی نااہلی کی دلیل اس پر دلیل دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا گھر مرکز توحید ہے اور ہر آنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ اس گھر میں اللہ کی بندگی بجالائے لیکن قریش اور دوسرے مشرکین نے جو کچھ اس گھر میں کیا ہے یا کررہے ہیں وہ خود ان کے کفر اور شرک پر گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ (360) بت لاکر رکھے پھر باقاعدہ ان کی پوجا کی۔ اپنے معمولات سے کعبہ کو شرک کا مرکز بنا کر رکھ دیا۔ ان کے اعمال میں سے ایک ایک عمل پکارتا ہے کہ ان کا اللہ کی بندگی اور توحید سے دورکا بھی رشتہ نہیں اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ مشرکینِ عرب اپنی قومی شناخت میں باقی قوموں سے نہایت مختلف واقع ہوئے تھے۔ باقی قوموں میں کوئی قوم ایسی نہیں جو شرک کا ارتکاب نہ کرتی ہو۔ عیسائی تین خدائوں کے دعویدار ہیں۔ ہندوئوں کے خدائوں کا کوئی شمار نہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں میں مہاتما بدھ کی حیثیت خدا اور شریک خدا سے کم نہیں۔ یہود بھی حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ باایں ہمہ ! ان قوموں یا ان اہل مذاہب میں سے کسی کو آپ مشرک کہہ کر پکاریں تو وہ آپ سے لڑنے پر آمادہ ہوجائے گا کیونکہ وہ شرک کرنے کے باوجوداپنے آپ کو مشرک کہلوانہ پسند نہیں کرتے اپنے شرک کو تاویل کے پردے میں لپیٹ کر دوسرے ناموں سے تعبیر کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن مشرکینِ عرب کا عجیب حال تھا کہ وہ اپنے آپ کو مشرک کہلانا نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ اس پر فخر کرتے تھے کہ انھوں نے شرک کو بطور دین اور عقیدہ کے اختیار کررکھا تھا۔ یہ ان کے تصور الوہیت کا ایک غیر منفک حصہ تھا۔ ایسے لوگ جو توحید سے اس حد تک بیزار ہوں انھیں آخر بیت اللہ جیسے مرکز توحید کے متولی ہونے کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ کفر کے ساتھ نیکیاں قبول نہیں کی جاتیں رہی یہ بات کہ انھوں نے ہمیشہ بیت اللہ سے عقیدت کا اظہار کیا اس کی تعمیر اور مرمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حجاج کی ہمیشہ خدمت کی۔ کیا یہ نیکیاں ان کے کسی کام نہیں آئیں گی ؟ وہ انھیں نیکیوں کو توشہ آخرت سمجھتے تھے اور آج بھی بہت سے لوگ ہیں کہ رفاہی کاموں اور لوگوں کے بھلے کے کام کرنے کو آخرت میں نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ غیر مسلموں میں کئی ایسے لوگ گزرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جنھوں نے لوگوں کی بھلائی کے لیے بہت سے کام کیے۔ تعلیمی ادارے قائم کیے، ہسپتال بنائے یا اور اس طرح کے کام ہیں جنھیں دیکھ کر لوگوں کو گمان ہوتا ہے کہ یہ لوگ جنت میں کیوں نہیں جائیں گے ؟ ان کی تو ضرور بخشش ہونی چاہیے۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں اپنے مخصوص انداز میں مختصر جواب دیا ہے۔ جو شاہانہ کلام کی شان ہوتی ہے۔ بادشاہ اپنی بات کی دلیل نہیں دیتے بلکہ بتادیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا اور یہی بات بادشاہ کے وفاداروں کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ان کے اس طرح کے خدمت کے تمام کام ضائع ہوگئے۔ یہ اللہ کے یہاں کسی صلہ کے مستحق نہیں ہوں گے یہ انجام کے اعتبار سے ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے سوال پر کسی حد تک تفصیل سے کام لیا۔ حضرت عائشہ ( رض) نے پوچھا کہ ابن جدعان جو عرب میں بھلائی کے کام کرنے میں معروف تھا اور زندگی بھر لوگوں کے کام آتا رہا، کیا اس کے ان کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت نہیں فرمائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اس نے کبھی اپنے اللہ سے یہ نہیں کہا تھا کہ یا اللہ ! مجھے بخش دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک انسان کو اپنی عبدیت اور اللہ کے معبود ہونے، اپنے مملوک ہونے اور اللہ کے مالک ہونے کا اعتراف نہیں ہوتا اور وہ اس کے احکام پر عمل کرنا لازمی سمجھ کر اپنی غلطیوں کے لیے اللہ سے معافی نہیں مانگتا اور اپنی بخشش کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشتا کیونکہ سب سے بنیادی بات اللہ کی اور اپنی حیثیت کا اعتراف ہے۔ جسے یہ اعتراف میسر نہیں اسے اللہ سے کسی طرح کی امید رکھنے کا بھی حق نہیں۔ جس طرح ایک شخص ملک کے حکمران کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اس کا محکوم نہیں سمجھتالیکن اپنے طور پر لوگوں کے بھلے کے کام کرتا ہے بہت سی اچھائیاں اس سے ظہور پذیر ہوتی ہیں تو دنیا کا کوئی حکمران اس کی اچھائیوں کو دیکھتے ہوئے حکومت کے انکار جیسے جرم کو برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ اللہ کا کائنات کا مالک ہونا، انسانوں کا خالق ومالک اور معبود ہونا اور انسان کا اللہ کا بندہ ہونا، اس قدر واضح ہے کہ کائنات کا پتہ پتہ اس پر دلیل ہے اور پھر انبیاء کی آمد اور کتب ہدایت کے نزول نے اسے اور زیادہ محکم بنادیا ہے۔ اس کے باوجود اللہ کا انکار، اس کے احکام کا انکار، اس کی ذات وصفات سے استہزاء، اس کی دی ہوئی زندگی اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اسی سے تنفر کا اظہار، یہ ایک ایسا جرم ہے جسے اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں فرماتے۔ اس لیے فرمایا کہ ایسے لوگ ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ مساجد کو جمع لانے کا سبب اس آیت کریمہ میں مساجد کو جمع لایا گیا ہے کیونکہ مساجد، مسجد کی جمع ہے حالانکہ مراد اس سے ” مسجد حرام “ ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس کے جمع لانے سے شاید اس طرف اشارہ ہے کہ مسجد حرام کا معاملہ تنہا مسجد حرام ہی کا نہیں بلکہ تمام مساجدِ الہٰی کا معاملہ ہے کیونکہ تمام مسجدیں مسجد حرام کی بیٹیاں ہیں۔ تمام مساجد کا اصل مرکزومحور اور سب کا قبلہ بیت اللہ ہے۔ اس لیے وہاں اگر کوئی غلط روایت پنپتی ہے تو باقی مساجد پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ہدایت وسعادت کا سارا ڈھانچہ بگڑ کر رہ جاتا ہے اور دوسرا شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مسجد حرام کا متولی ہونا کسی کافر اور مشرک کے لیے جائز نہیں اسی طرح کسی مسجد کا انتظام بھی کسی کافر اور مشرک کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ردالمختار، شامی اور مراغی جیسی کتابوں میں فقہا نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کسی مسجد یا کسی اسلامی وقف کا متولی اور منتظم کافر نہیں ہوسکتا۔ ہاں مسجد کی تعمیر میں کافر سے کام لیا جاسکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ مسلمانوں میں پرہیزگا رلوگ مسجدوں کی تعمیر کریں۔ اس طرح اگر کوئی غیر مسلم ثواب سمجھ کر مسجد بنادے یا مسجد بنانے کے لیے مسلمانوں کو چندہ دے دے تو اگر اس کا کاروبار خنزیر، سو دیا خمر وخمار جیسے محرمات سے متعلق نہیں تو اس سے چندہ لیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے کسی دینی یا دنیوی نقصان یا الزام یا آئندہ اس پر قبضہ کرلینے کا خطرہ نہ ہو۔ مسجدوں کو آباد رکھنے والوں کی صفات دوسری آیت کریمہ میں ان لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ کے گھروں کا آباد کرسکتے ہیں اور انھیں حق ہے کہ اللہ کے گھروں کو آباد کریں یعنی اللہ کے گھروں کے متولی بنیں، ان کے انتظامی معاملات کے کفیل ہوں اور خاص طور پر مسجد حرام کا متولی ہونا اور اس کے انتظامات کا ذمہ دار ہونا ان لوگوں کو زیب دیتا ہے جن میں یہ صفات پائی جاتی ہوں جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہیں۔ اب ہم آیت میں بیان کردہ صفات کو اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں۔ 1 اللہ اور آخرت پر ایمان : اللہ کے گھروں کو وہ آباد کرسکتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں۔ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی ذات کو اس طرح مانتے ہوں جس طرح اسے ماننے کا حق ہے۔ اس کی ان صفات پر یقین رکھتے ہوں جو قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہیں۔ ایمان کا معنی ہوتا ہے، مان لینا اور یقین کرنا۔ یہی وہ یقین ہے جسے دل کی تصدیق بھی کہا جاتا ہے اور پھر اللہ کی ذات کو اس طرح ماننا کہ جس میں کسی شرک کی آمیزش ہو، نہ کسی دوسرے خدا کے تصور کا کوئی جواز ہو، نہ اس کی ان صفات میں جو اس کے ساتھ مخصوص ہیں کسی اور کو شامل کرنے کی جسارت ہو۔ جب آدمی اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ کا علم بہت وسیع ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہر کام کرنے والا اس کی نگاہوں میں ہے۔ تو اسے کبھی یہ وہم بھی نہ ہو کہ میرا کوئی کام اللہ سے مخفی سے رہ سکتا ہے، میری کوئی دعا اللہ کے ہاں سنی نہیں جاتی، میرے دل میں آنے والا کوئی خیال اس سے مخفی رہ سکتا ہے، میرا لوگوں سے کوئی معاملہ اس کے علم میں آئے بغیر رہ سکتا ہے۔ وہ اتنی باخبر ذات ہے کہ صحرا میں گرنے والا درخت کا پتہ اس کی نظروں سے دور نہیں رہتا۔ کوئی رطب ویابس چیز ایسی نہیں جو اس کے علم میں نہ ہو۔ اسی طرح جب وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ کی قدرتیں بےپناہ ہیں تو اسے یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ جب اپنے ماننے والوں کو امید دلاتا ہے کہ تم اگر اپنا آپ میرے دین کے لیے وقف کردوگے تو میں تمہاری قوت بن جاؤں گا، تمہاری پشت پناہی کروں گا، تمہیں کفر پر غالب رکھوں گا اور تمہیں دشمن کے سامنے کبھی ذلیل نہیں ہونے دوں گا شرط صرف یہ ہے کہ تم اللہ سے بےوفائی نہ کرنا، اس کے توکل میں کمی نہ کرنا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنا۔ اسی طرح جب ایک مومن یہ مانتا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں تو اسے پھر اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ میری بندگی میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ میرا سر اس کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ میرے جسم وجان کی تمام رعنائیاں اسی کے لیے وقف ہیں۔ میری تمام صلاحیتیں اس کے دین کی بالا دستی کے لیے صرف ہوں گی۔ مختصر یہ کہ اس پر ایمان لانے کا اصل جوہر یہ ہے کہ اس کی صفات پر مکمل یقین، اس کے وعدوں پر حتمی ایقان، اس کے دئیے ہوئے آئین و قانون کے مقابلے میں ہر وضعی آئین و قانون کو اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں حاکمانہ حیثیت سے قبول کرنے سے انکار اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت پر یقین اس کا لازمی حصہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن اس بات پر پختہ یقین رکھے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب مجھے اپنے ہر قول وفعل کا حساب دینا ہوگا۔ اگر میں جواب دہی میں کامیاب ٹھہرا تو جنت میرا مسکن ہوگا اور اگر اس میں ناکامی ہوئی تو یہ وہ نامرادی ہے جس سے کوئی چھٹکارا نہیں دلاسکتا۔ آپ نے دیکھا کہ اس آیت میں اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر ایمان کا ذکر ہے۔ لیکن اللہ کے رسول پر ایمان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس سے بظاہر ایک غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید نجات کے لیے اللہ اور آخرت پر ایمان کافی ہے ہر رسول کو ماننا ضروری نہیں۔ لیکن اگر ایمان باللہ کا صحیح مفہوم سمجھ لیا جائے تو اس غلط فہمی کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو اللہ پر ایمان کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ آدمی دل سے اس کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول پر ایمان لانا اللہ پر ایمان لانے میں داخل ہے۔ 2 اقامتِ صلوٰۃ : اقامتِ صلوٰۃ درحقیقت ایمان باللہ کی عملی تصویر و تعبیر ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ اللہ پر ایمان لانے والے شخص کا حقیقی روپ کیا ہے، تو وہ ایک ایسے مومن کو دیکھے جو نماز کو واقعی ویسے ہی پڑھتاہو جیسے نماز پڑھنے کا حق ہے۔ جب وہ اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت باندھے تو اہل دنیا کی ساری عظمتیں اس کے سامنے ڈھیر ہوجائیں۔ تخت وتاج کی کوئی قیمت اس کی نگاہوں میں نہ رہے۔ وہ جب ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہو تو اس کا انگ انگ اللہ کی غلامی کا اقرار کرے۔ اس کی زبان اللہ کی حمد وثنا میں زمزمہ سنج ہو۔ وہ جھکے یا اٹھے ہر موقع پر اللہ کی کبریائی کا ترانہ اس کے لبوں پر ہو۔ وہ اپنی زندگی کا سارا سرمایہ اللہ کی کبریائی کے سامنے ڈھیر کردے۔ جو شخص دن میں پانچ مرتبہ ہر بڑائی سے انکار اور اللہ کی عظمت اور بڑائی کا اقرار اس طرح کرے کہ خشوع خضوع کی لہریں اس کے دل و دماغ سے اٹھیں اور چہرے پر نور بن کر پھیل جائیں یہی وہ زندگی ہے جو انسانیت کے لیے قابل فخر ہے۔ 3 ایتائے زکوٰۃ : انسانی زندگی کا بیشتر حصہ معاملات سے عبارت ہے اور معاملات کا فعال حصہ مالیات سے تعلق رکھتا ہے جس طرح انسانی صلاحیتیں اللہ کی اطاعت و بندگی میں صرف ہونی چاہئیں، اسی طرح اس کے تمام مالی معاملات شریعت کی ان حدود وقیود سے چھن کر گزرنے چاہئیں اور ایک مومن کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ مال و دولت، دولت کے مالک کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی ملکیت اور اس کے پاس امانت ہے۔ آدمی جن صلاحیتوں سے کام لے کر دولت کماتا ہے، وہ اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ اس کے علاوہ دولت کے دیگر وسائل وہ بھی اللہ کی دین ہیں۔ جب تک مالی معاملات میں تطہیر نہ ہو اور انسان اپنے معاملات پر اللہ کی نگرانی کا یقین نہ رکھے اور دولت کی کمی بیشی میں اس کو مؤثرنہ مانے اس وقت تک انسانی زندگی کا بیشتر حصہ تقویٰ کی دولت سے محروم رہتا ہے۔ 4 وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ ” وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا “: اللہ کے گھرچون کہ اسلامی تعلیم و تربیت کے مرکز ہیں وہیں سے توحید کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔ ڈر ایک تو وہ کیفیت ہے جو انسان کسی ڈرائونی چیز سے اپنے اوپر محسوس کرتا ہے۔ وہ تو انسانی فطرت ہے، یہاں وہ مراد نہیں۔ یہاں ڈر سے مراد وہ ڈر ہے جس کی وجہ سے آدمی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا۔ اللہ کے احکام کی اطاعت میں وہ کسی خطرے کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اللہ کے دین کی سربلندی اس کی عزت کے دفاع اور ملک وملت کے دفاع کے لیے لڑنا ناگزیر ہوجائے تو اسے ساری دنیا سے ٹکرانے میں بھی تأمل نہیں ہوتا۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اللہ کے گھروں کو آباد رکھنے کا حق رکھتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کے فضل و کرم سے اپنی منزل تک کامیابی اور کامرانی سے پہنچیں گے۔
Top