Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
بیشک اللہ نے تمہاری مدد فرمائی ہے بہت سے مواقع پر اور حنین کے دن بھی جبکہ تمہیں غرہ میں مبتلا کردیا تھا تمہاری کثرت نے پس وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پشت پھیر کر بھاگ نکلے۔
لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنِ کَثِیْرَۃٍ لا وَّیَوْمَ حُنَیْنٍلااِذْاَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَارَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ ج ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا طوَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰہُ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُطوَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ ( التوبۃ : 25 تا 27) (بےشک اللہ نے تمہاری مدد فرمائی ہے بہت سے مواقع پر اور حنین کے دن بھی جبکہ تمہیں غرہ میں مبتلا کردیا تھا تمہاری کثرت نے پس وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پشت پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور ایسی فوجیں نازل کیں جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو عذاب دیا اور یہی بدلہ ہے کافروں کا۔ پھر اللہ توبہ کی توفیق دے دیتا ہے اس کے بعد جسے چاہتا ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ) ہم اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں کہ مسلمانوں میں منافقین بھی تھے اور کمزور ایمان والے بھی۔ انھوں نے جب یہ سنا کہ پروردگار نے تمام اہل عرب سے ترک تعلق کا اعلان کردیا ہے اور ذمہ داری سے دستبرداری ظاہر فرمائی ہے تو انھیں شدید پریشانی ہوئی کیونکہ ان میں سے وہ لوگ جو ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ ان کا تعلق مسلمانوں سے ابھی اتنا قائم نہیں ہوا تھا جتنا وہ اپنے کفار رشتہ داروں سے رکھتے تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ فتحِ مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے عفو و درگزر کی جو پالیسی اپنائی ہے شاید یہی چلتی رہے گی اور ہمارے کافر رشتہ داروں سے تعلقات بدستور باقی رہیں گے اور اس طرح سے ہمارے مالی معاملات اور کاروباری تعلقات میں کسی نقصان کا اندیشہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اچانک سورة توبۃ کی بعض آیات کی شکل میں ترک معاہدات اور ترک تعلق کا اعلان ان کے لیے انتہائی تشویش کی بات تھی اور اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگ ایسے تھے جو اس اعلان میں خطرات کی بو سونگھ رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ جزیرہ عرب میں ابھی تک مشرکین کی ایک معقول تعداد موجود ہے ایسے اعلانات ان میں اشتعال پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ جب یہ دیکھیں گے کہ ان کا وطن ان سے چھینا جارہا ہے تو وہ یقینا اس کے لیے آخری اقدام سے بھی گریز نہیں کریں گے، اس کے نتیجے میں یقینا کوئی بڑا معرکہ وجود میں آسکتا ہے۔ اس طرح سے مسلمانوں کے لیے خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ کامیابی صرف نصرت الہٰی سے ہوتی ہے پھر پریشانی کیسی ؟ اس پوری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پیش نظر آیات کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ تم حالات کے تیوروں سے گھبرا رہے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں کی مختصر تاریخ میں اس سے پہلے کئی دفعہ بڑے پیچیدہ حالات پیدا ہوچکے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر مسلمانوں کی مدد فرمائی، اب تو اسلام اور مسلمان جزیرہ عرب کی فیصلہ کن قوت ہیں۔ لیکن جنگ بدر کے وقت مٹھی بھر مسلمانوں کے سوا کون سی قوت تھی جو مسلمانوں کو فتح دلانا تو دور کی بات ہے تحفظ کی بھی ضمانت دے سکتی۔ مقابلے میں قریش کا طاقتور لشکر اور چاروں طرف پھیلے ہوئے ان کے ہم مذہب قبائل اسلحہ کی فراوانی اور رسد و کمک کے غیر معمولی وسائل، لیکن ایسی خطرناک صورتحال میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتحِ عظیم عطا فرمائی جس کی نظیر شاید تاریخ میں نہ مل سکے۔ جنگ احد میں اپنی غلطیوں سے اگرچہ مسلمان حادثے کا شکار بھی ہوئے لیکن محض اللہ کی تائید ونصرت سے میدان انھیں کے ہاتھ رہا اور غنیم کو پسپائی کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی۔ جنگ خندق میں ہر شخص مسلمانوں کی تباہی دیکھ رہا تھا ایک طرف پورے جزیرہ عرب کی منتخب اور خونخوار قوت اور دوسری طرف تین ہزار نہتے اور کمزور مسلمان لیکن نتیجہ سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی مدد فرمائی کہ دشمن اپنی ناکامی کے زخم چاٹتا ہوا واپس جانے پر مجبور ہوگیا اور آنحضرت ﷺ نے ایک ایسا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جس کی صداقت تاریخ کی سچائی بن گئی۔ آپ نے فرمایا کہ (آج کے بعد تم ہی قریش پر چڑھ کر جاؤ گے، قریش اپنی اقدامی قوت کھو چکے ہیں۔ ) مختصر یہ کہ کوئی موقع ایسا نہیں جس میں پروردگار نے انتہائی خطرناک حالات میں بھی مسلمانوں کی مدد نہ فرمائی ہو۔ تو پھر کس قدر عجیب بات ہے کہ آج کچھ کمزور ایمان کے لوگ اندیشہ ہائے دوردراز کا شکار ہو کر کمزوری کا اظہار کررہے ہیں۔ پہلے جملے میں ایک مجمل اور مطلق بات کہنے کے بعد ایک مثال سے اس کی وضاحت فرمائی گئی اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک شب ہے کا جواب دیا جارہا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ یوں تو اللہ کی تائید ونصرت کا ایک ایک موقع تمہارے سامنے ہے لیکن اگر تم کسی واقعہ کو بطور نمونہ یا بطور دلیل دیکھنا چاہتے ہو تو قریبی تاریخ میں تمہارے سامنے ” حنین “ کا واقعہ گزرا ہے۔ اس میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے نہایت ناگفتہ بہ حالات میں مسلمانوں کی مدد فرمائی وہ بجائے خود اس قدر سبق آموز ہے کہ اس کے بعد کسی اور حقیقت کو دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ وہ ایک طرف اگر اللہ کی تائید ونصرت کی کھلی مثال ہے تو دوسری طرف اس لحاظ سے مسلمانوں کے لیے سبق آموز ہے کہ اس میں مسلمانوں کو اپنی ایک غلطی کا خمیازہ بڑی خطرناک صورت میں برداشت کرنا پڑا اگر بروقت اللہ کی نصرت حوصلہ نہ دیتی اور فرشتے مسلمانوں کے ہمرکاب نہ ہوتے تو کوئی سی ناگوار صورتحال پیش آسکتی تھی۔ اس واقعہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ غزوہ حنین کے بارے میں کچھ تفصیل عرض کردی جائے۔ غزوہ حنین کی تفصیلـ حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ ابن سعد نے تصریح کی ہے کہ یہ مکہ سے تین دن کے سفر کی مسافت پر واقع ہے۔ حنین کے قریب ایک اور وادی ہے جسے ” وادیِ اوطاس “ کہتے ہیں۔ اسے بنو ہوازن کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ یہ وادی اگرچہ حنین سے علیحدہ ہے لیکن عام طور پر اس علاقے کو حنین ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مکہ معظمہ فتح ہوجانے کے بعد عام تاثر یہ تھا کہ عرب کا مرکز قوت سرنگوں ہوگیا ہے کیونکہ قریش کو پورے عرب میں مرکزی اور حاکمانہ حیثیت حاصل تھی۔ اسی لیے عام قبائل نے خود پیش قدمی کی اور اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔ لیکن طائف پر اس کا بالکل الٹا اثر پڑا۔ وہاں کے دو بڑے قبیلے اپنی طاقت اور مالداری کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ چناچہ ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں نے بجائے اسلام قبول کرنے کے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر ہم نے ذرا کمزوری دکھائی تو مکہ کے بعد ہماری باری ہے اور مسلمان اس علاقے کو فتح کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ انھیں چونکہ اپنی بہادری اور فنونِ جنگ سے آگاہی پر غیر معمولی ناز تھا، اس لیے ہوازن اور ثقیف کے رؤ سا نے مضر، جشم اور سعد بن بکر کے قبائل کو اپنے ساتھ شامل کرکے باقاعدہ فوجوں کا اجتماع شروع کردیا۔ مالک بن عوف جو ہوازن کا رئیسِ اعظم تھا، اسے بالاتفاق فوجوں کا کمانڈرچنا گیا اور دریدبن الصمہ کو بطور مشیر اپنے ساتھ لیا گیا۔ وہ اگرچہ سو سال کا بہت بوڑھا ہوچکا تھا لیکن اس کی بہادری اور تجربہ کاری مسلّم تھی۔ اس لیے مشورہ کے لیے اسے ساتھ رکھا گیا۔ جوش وجذبہ کا عالم یہ تھا کہ ہر قبیلہ اپنے تمام اہل و عیال ساتھ لے کر آیا تھا اور خیال یہ تھا کہ بچے اور عورتیں ساتھ ہوں گی تو ان کی حفاظت کی غرض سے لوگ جانیں دے دیں گے۔ آنحضرت ﷺ کو جب وادی اوطاس میں دشمن کے غیر معمولی اجتماع کی خبر ملی۔ تو آپ نے بھی مقابلہ کی تیاریاں شروع کیں۔ رسد اور سامانِ جنگ کے لیے قرض کی ضرورت پیش آئی۔ عبداللہ بن ربیعہ ( رض) نہایت دولت مند تھے ان سے تیس ہزار درہم قرض لیا۔ صفوان بن امیہ جو مکہ کا رئیس اعظم اور مہمان نوازی میں مشہور تھا لیکن اب تک اسلام نہیں لایا تھا اس سے آنحضرت ﷺ نے اسلحہ جنگ مستعار مانگے اس نے سو (100) زرہیں اور اس کے لوازمات پیش کیے۔ شوال آٹھ (8) ہجری مطابق جنوری وفروری 630 ؁ء میں اسلامی فوجیں جن کی تعداد بارہ ہزار تھی، اس سروسامان سے حنین کی طرف بڑھیں کہ بعض صحابہ کی زبان سے بےاختیار نکل گیا کہ آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ لیکن بارگاہِ ایزدی میں یہ نازش پسند نہ تھی۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اسلامی لشکر منگل اور بدھ کی درمیانی رات دس (10) شوال کو حنین پہنچا۔ لیکن مالک بن عوف یہاں پہلے ہی پہنچ کر اور اپنا لشکر رات کی تاریکی میں اس وادی کے اندر اتار کر، اسے راستوں، گزرگاہوں، گھاٹیوں، پوشیدہ جگہوں اور دروں میں پھیلا اور چھپاچکا تھا اور یہ حکم دے چکا تھا کہ مسلمان جوں ہی نمودار ہوں انھیں تیروں سے چھلنی کردینا پھر ان پر یکدم اکٹھے ٹوٹ پڑنا۔ بنو ہوازن اور بنوثقیف تیراندازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یوں تو وہ کسی حوالے سے دوسروں سے کم نہ تھے لیکن تیراندازی ان کا خاص جوہر تھا۔ صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ نے لشکر کی ترتیب وتنظیم فرمائی اور پرچم باندھ باندھ کر لوگوں میں تقسیم کیے۔ پھر صبح کے جھٹ پٹے میں مسلمانوں نے آگے بڑھ کر وادی حنین میں قدم رکھا۔ وہ دشمن کے وجود سے قطعی بیخبر تھے۔ انھیں مطلق علم نہ تھا کہ اس وادی کے دروں کے اندر ثقیف اور ہوازن کے جیالے ان کی گھات میں بیٹھے ہیں۔ اس لیے وہ بیخبر ی کے عالم میں پورے اطمینان کے ساتھ اتر رہے تھے کہ اچانک ان پر تیروں کی بارش شروع ہوگئی۔ پھر فوراً ہی ان پر دشمن کے پرے کے پرے ایک دم اکٹھے ٹوٹ پڑے۔ اس اچانک حملے سے مسلمان سنبھل نہ سکے اور ان میں ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف دیکھ نہ رہا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ بھاگنے والے وہ لوگ تھے جن کے پائوں کبھی کسی میدان میں پیچھے نہیں ہٹے تھے۔ لیکن اگر غور و فکر سے کام لیاجائے تو مسلمانوں کی پسپائی خلاف تعجب معلوم نہیں ہوتی۔ ایک فوج جو صبح کے اندھیرے میں پہاڑی وادی میں اترتی ہے اور ابھی اسے صفیں باندھنے اور پائوں جمانے کا موقعہ نہیں ملتا کہ اس پہاڑی وادی کے دروں اور غاروں میں چھپے ہوئے ہزاروں تیر انداز اچانک ان پر تیروں کی بارش کردیتے ہیں۔ یہ لوگ لوہے کے نہیں گوشت پوست کے بنے ہوئے تھے، اس بارش میں کیسے کھڑے رہ سکتے تھے ؟ وہ پیچھے پلٹے لیکن بھاگنے کے لیے نہیں بلکہ سنبھلنے کے لیے اور ساتھ ہی ایک اور بات بھی ذہن میں رکھئے کہ ان میں دوہزار کی تعداد میں ایسے لوگ تھے جنھیں ” طلقاء “ کہا جاتا ہے۔ جن میں بیشتر ابھی ایمان نہیں لائے تھے۔ اپنی منافقت چھپانے کے لیے لشکر میں چلے آئے تھے بلکہ سب سے آگے آگے تھے۔ مقصود پہلے سے یہ تھا کہ جیسے ہی کوئی بہانہ ملا ہم بھاگ کھڑے ہوں گے تاکہ مسلمانوں کو پائوں جمانے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ بات میں پہلی دفعہ نہیں کہہ رہا بلکہ بعض صحابہ کی بھی یہی رائے تھی۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ام سلیم ( رض) جو اس جنگ میں شریک تھیں انھوں نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ حضور ان طلقاء کو قتل کردیجیے، انھیں کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ لیکن جہاں تک صحابہ کرام کا تعلق ہے وہ اگرچہ تیراندازی کی آندھی میں کسی حد تک حواس باختہ ہوگئے لیکن انھوں نے سنبھلنے میں تاخیر نہیں کی۔ تیروں کا مینہ برس رہا تھا، مسلمانوں کی فوج دائیں بائیں جگہ بنانے کی فکر میں تھی۔ لیکن دشمن انھیں کہیں بھی پائوں ٹکانے کا موقع نہیں دے رہا تھا۔ ایسے حال میں بھی ایک پیکر مقدس سراپا استقلال بنے کھڑا تھا جو تنہا ایک فوج، ایک ملک، ایک اقلیم، ایک عالم بلکہ مجموعہ کائنات تھا۔ آنحضرت ﷺ نے دا ہنی جانب دیکھا اور پکارا یامعشر الانصار، آواز کے ساتھ انصار کی صدا آئی : لبیک یا رسول اللہ ابشر نحن معک (ہم حاضر ہیں یارسول اللہ آپ خوش ہیں کہ ہم آپ کے پاس ہیں) ایک دوسری روایت میں ہے : نحن بین یدیک (ہم حاضر ہیں یارسول اللہ ہم آپ کے سامنے ہیں) پھر آپ نے بائیں جانب مڑ کر پکارا اب بھی وہی آواز آئی۔ آپ سواری سے اتر پڑے اور جلالِ نبوت کے لہجہ میں فرمایا ” میں اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہوں “۔ بخاری کی دوسری روایت میں ہے : انا النبی لا کذب اناابن عبدالمطلب (میں پیغمبر ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں) ۔ حضرت عباس ( رض) نہایت بلند آواز تھے۔ آپ نے ان کو حکم دیا کہ مہاجرین اور انصار کو آواز دو ۔ انھوں نے نعرہ مارا یامعشر الانصار ! اے گروہ انصار۔ یا اصحاب الشجرۃ ! اے اصحابِ شجرۃ (بیعت رضوان والے) اس پراثر آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ تمام فوج دفعۃً پلٹ پڑی۔ جن لوگوں کے گھوڑے کشمکش اور گھمسان کی وجہ سے مڑ نہ سکے، انھوں نے زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود پڑے۔ نبی کریم ﷺ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو گھمسان کا رن پڑ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اب چولہا گرم ہوگیا ہے۔ پھر آپ نے زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا : شاہت الوجوہ ” چہرے بگڑ جائیں “۔ یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس سے بھر نہ گئی ہو۔ دفعۃً لڑائی کا رنگ بدل گیا۔ کفار بھاگ نکلے اور جو رہ گئے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔ بنو مالک جم کر لڑے لیکن ان کے ستر آدمی مارے گئے اور جب ان کا علم بردار عثمان بن عبداللہ مارا گیا تو وہ بھی ثابت قدم نہ رہ سکے۔ شکست خوردہ فوج ٹوٹ پھوٹ کر کچھ اوطاس میں جمع ہوئی اور کچھ طائف میں جاکر پناہ گزیں ہوئی۔ جن کے ساتھ سپہ سالارِ لشکر مالک بن عوف بھی تھا۔ ورید بن الصمہ کئی ہزار کی جمعیت لے کر اوطاس میں آیا۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوعامر اشعری ( رض) کے ماتحت تھوڑی سی فوج اس کے استیصال کے لیے بھیج دی۔ حضرت ابو عامر، ورید کے بیٹے کے ہاتھ سے مارے گئے اور علم اسلام اس کے ہاتھ میں تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ اشعری نے آگے بڑھ کر حملہ کیا، دشمن کو قتل کر کے علم اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔ ورید ایک شتر پر ہودج میں سوار تھا۔ ربیعہ بن رفیع نے اس پر تلوار کا وار کیا لیکن اچٹ کر رہ گئی، اس نے کہا تیری ماں نے تجھے اچھے ہتھیار نہیں دیئے۔ پھر کہا میرے محمل میں تلوار ہے۔ نکال لو اور جب اپنی ماں کے پاس جانا تو کہنا کہ میں نے ورید کو قتل کردیا۔ ربیعہ نے جاکر ماں کو اس کے قتل کی خبر دی۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم ! ورید نے تیری تین مائوں کو آزاد کرایا تھا۔ ( اسیرانِ جنگ کی تعداد ہزاروں سے زیادہ تھی۔ ان میں حضرت شیما بھی تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی رضاعی بہن تھیں۔ لوگوں نے جب ان کو گرفتار کیا تو انھوں نے کہا میں تمہارے پیغمبر کی بہن ہوں۔ لوگ تصدیق کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ کے پاس لائے انھوں نے پیٹھ کھول کر دکھائی، ایک دفعہ بچپن میں آپ نے دانت سے کاٹا تھا۔ یہ اس کا نشان ہے۔ فرطِ محبت سے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ان کے بیٹھنے کے لیے خودردائے مبارک بچھائی، محبت سے باتیں کیں، چند شتر اور بکریاں عنائیت فرمائیں اور ارشاد کیا کہ ” جی چاہے تو میرے گھر چل کر رہو اور گھر جانا چاہو تو وہاں پہنچادیا جائے۔ انھوں نے خاندان کی محبت سے وطن جانا چاہا چناچہ عزت واکرام کے ساتھ پہنچا دی گئیں “۔ محاصرہ طائف : حنین کی بقیہ شکست خوردہ فوج طائف میں جاکر پناہ گزیں ہوئی اور جنگ کی تیاریاں شروع کیں طائف نہایت محفوظ مقام تھا۔ طائف، اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے گرد شہر پناہ کے طور پر چاردیواری تھی۔ یہاں ثقیف کا جو قبیلہ آباد تھا، نہایت شجاع، تمام عرب میں ممتاز اور قریش کا گویا ہمسر تھا۔ عروہ بن مسعود جو یہاں کا رئیس تھا ابو سفیان (حضرت امیرمعاویہ کے باپ) کی لڑکی اس کو بیاہی تھی۔ کفار مکہ کہتے تھے کہ قرآن اگر اترتا تو مکہ یا طائف کے رؤسا پر اترتا یہاں کے لوگ فنِ جنگ سے بھی واقف تھے۔ طبری اور ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ عروہ بن مسعود اور غیلان بن سلمہ نے جرش (یمن کا ایک ضلع) میں جاکر قلعہ شکن آلات یعنی دبابہ، ضبور اور منجنیق کے بنانے اور استعمال کرنے کا فن سیکھا تھا۔ یہاں ایک محفوظ قلعہ تھا، اہل شہر اور حنین کی شکست خوردہ فوج نے اس کی مرمت کی، سال بھر کا رسد کا سامان جمع کیا، چاروں طرف منجنیق اور جابجا قدرانداز متعین کیے۔ آنحضرت ﷺ نے حنین کے مال غنیمت اور اسیرانِ جنگ کے متعلق حکم دیا کہ جعرانہ میں محفوظ رکھے جائیں اور خود طائف کا عزم کیا۔ حضرت خالد مقدمۃ الجیش کے طور پر پہلے روانہ کردئیے گئے تھے۔ غرض محاصرہ ہوا اور اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ قلعہ شکن آلات یعنی دبابہ اور منجنیق استعمال کیے گئے۔ دبابہ پر اہل قلعہ نے لوہے کی گرم سلاخیں برسائیں اور اس شدت کی تیر باری کی کہ حملہ آوروں کو ہٹنا پڑا، بہت سے لوگ زخمی ہوئے، بیس دن تک محاصرہ رہا لیکن شہر فتح نہ ہوسکا۔ آنحضرت ﷺ نے نوفل ابن معاویہ کو بلا کر پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے ؟ انھوں نے کہا : لومڑی بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی لیکن چھوڑ دی جائے تب بھی کچھ اندیشہ نہیں۔ چونکہ صرف مدافعت مقصود تھی۔ آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ محاصرہ اٹھالیا جائے۔ صحابہ نے عرض کی آپ ان کو بددعا دیں۔ آپ نے یہ دعادی۔ اللھم اھد ثقیفا وائت (اے اللہ ! ثقیف کو ہدایت کر اور توفیق دے کہ میرے پاس حاضر ہوجائیں) تقسیمِ غنائم : محاصرہ چھوڑ کر آپ ﷺ جعرانہ تشریف لائے۔ غنیمت کا بیشمار ذخیرہ تھا۔ چھ ہزار اسیرانِ جنگ، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار (سے زیادہ) بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی۔ اسیرانِ جنگ کے متعلق آپ نے انتظار کیا ان کے عزیز و اقارب آئیں تو ان سے گفتگو کی جائے۔ لیکن کئی دن گزرنے پر کوئی نہ آیا تو مال غنیمت کے پانچ حصے کیے گئے۔ چار حصے حسب قاعدہ اہل فوج کو تقسیم کیے گئے، خمس بیت المال اور غرباء و مساکین کے لیے رکھا گیا۔ مکہ کے اکثر رئوسا جنھوں نے حال میں اسلام قبول کیا تھا، ابھی تک مذبذب الاعتقاد تھے، انہی کو قرآن مجید میں مؤلفۃ القلوب کہا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں زکوٰۃ کے مصارف بیان کیے گئے ہیں ان لوگوں کا نام بھی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو نہایت فیاضانہ انعامات دئیے جن کی تفصیل یہ ہے۔ ابوسفیان مع اولاد 300 اونٹ، اور 12 اوقیہ چاندی حکیم بن حزام 200 اونٹ نضیر بن حارث بن کلدہ ثقفی 100 اونٹ صفوان بن امیہ 100 اونٹ قیس بن عدی 100 اونٹ سہیل بن عمرو 100 اونٹ حویطب بن عبدالعزی 100 اونٹ (ان کے علاوہ تین غیر مکی نو مسلم رئیس بھی ان انعامات کے مستحق ٹھہرے) اقرع بن حابس (تمیمی) 100 اونٹ عینیہ بن حصن (فزاری) 100 اونٹ مالک بن عوف (نصری) 100 اونٹ ان کے سوا بہت سے لوگوں کو پچاس پچاس اونٹ عطا فرمائے گئے۔ عام تقسیم کی رو سے فو ج کے حصہ میں جو آیا فی کس چار اونٹ اور چالیس بکریاں تھیں۔ لیکن چونکہ سواروں کو تگنا حصہ ملتا تھا، اس لیے ہر سوار کے حصہ میں بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں آئیں۔ جن لوگوں پر انعام کی بارش ہوئی، عموماً اہل مکہ اور اکثر جدید الاسلام تھے۔ اس پر انصار کو رنج ہوا۔ بعضوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے قریش کو انعام دیا اور ہم کو محروم رکھا حالانکہ ہماری تلواروں سے اب تک قریش کے خون کے قطرے ٹپکتے ہیں۔ بعض بولے کہ مشکلات میں ہماری یاد ہوتی ہے اور غنیمت اوروں کو ملتی ہے۔ انصار کے احساسِ محرومی پر آنحضرت ﷺ کا خطاب آنحضرت ﷺ نے یہ چرچے سنے تو انصار کو طلب فرمایا۔ ایک چرمی خیمہ نصب کیا گیا جس میں لوگ جمع ہوئے آپ نے انصار کی طرف خطاب کیا کہ تم نے ایسا کہا ؟ لوگوں نے عرض کی کہ ” حضور ! ہمارے سربرآوردہ لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا۔ نوخیز نوجوانوں نے یہ فقرے کہے تھے۔ “ صحیح بخاری باب مناقب الانصار میں حضرت انس ( رض) سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے انصار کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے ؟ تو چونکہ انصار جھوٹ نہیں بولتے تھے، انھوں نے کہا ” آپ نے جو سنا صحیح ہے “ آپ نے ﷺ نے ایک خطبہ دیا جس کی نظیر فنِ بلاغت میں نہیں مل سکتی۔ انصار کی طرف خطاب فرماکر کہا : (کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم پہلے گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعہ سے تم کو ہدایت کی، تم منتشر اور پراگندہ تھے۔ اللہ نے میرے ذریعہ سے تم میں اتفاق پیدا کیا۔ تم مفلس تھے اللہ نے میرے ذریعہ سے تم کو دولتمند کیا۔ ) آپ یہ فرماتے جاتے تھے اور ہر فقرہ پر انصار کہتے جاتے تھے کہ ” خدا اور رسول کا احسان سب سے بڑھ کر ہے “ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ! تم یہ جواب دو کہ اے محمد ﷺ ! تجھ کو جب لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے تیری تصدیق کی، تجھ کو لوگوں نے چھوڑ دیا تو ہم نے پناہ دی، تو مفلس آیا تھا ہم نے ہر طرح کی مدد کی۔ یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کہ تم یہ جواب دیتے جاؤ اور میں یہ کہتا جاؤں گا کہ تم سچ کہتے ہو۔ لیکن اے انصار ! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کرجائیں اور تم محمد ﷺ کو لے کر اپنے گھر آئو۔ انصار بےاختیار چیخ اٹھے کہ ” ہم کو صرف محمد ﷺ درکار ہیں “۔ اکثروں کا یہ حال ہوا کہ روتے روتے داڑھیاں ترہوگئیں۔ آپ نے انصار کو سمجھایا کہ مکہ کے لوگ جدید الاسلام ہیں۔ میں نے ان کو جو کچھ دیا حق کی بنا پر نہیں بلکہ تالیفِ قلب کے لیے دیا۔ حنین کے اسیرانِ جنگ اب تک جعرانہ میں محفوظ تھے۔ ایک معزز سفارت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ اسیرانِ جنگ رہا کردئیے جائیں۔ یہ وہ قبیلہ تھا کہ آپ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ اسی قبیلہ کی تھیں۔ رئیسِ قبیلہ (زبیر بن صرو) نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور آنحضرت ﷺ کی طرف مخاطب ہو کر کہا ” جو عورتیں چھپروں میں محبوس ہیں، انہی میں آپ کی پھوپھیاں اور آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم اگر سلاطینِ عرب میں سے کسی نے ہمارے خاندان کا دودھ پیا ہوتا تو ان سے بہت کچھ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ توقعات ہیں “۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خاندانِ عبدالمطلب کا جس قدر حصہ ہے وہ تمہارا ہے لیکن عام رہائی کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے بعد جب مجمع ہو تو سب کے سامنے یہ درخواست پیش کرو۔ نماز ظہر کے بعد ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی آپ نے فرمایا۔” مجھ کو صرف اپنے خاندان پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے ان کے لیے سفارش کرتا ہوں “۔ مہاجرین اور انصار بول اٹھے : ہمارا حصہ بھی حاضر ہے، اس طرح چھ ہزار دفعۃً آزاد تھے۔ ) ( ماخوذ از سیرۃ النبی) آیاتِ کریمہ میں بیان کردہ ہدایات غزوہ حنین کا تذکرہ ہم نے تفصیل سے پڑھا آیات کریمہ ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ بعض کمزور مسلمانوں کو مشرکینِ عرب کی طرف سے ذہنی تحفظات ہیں۔ وہ آنے والے خطرات کو ضرورت سے زیادہ محسوس کررہے ہیں حالانکہ انھیں خوب معلوم ہے کہ اسلامی قافلہ چند سالوں میں کامرانی کی جن منازل کو طے کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے وہ اس کے اپنے دست وبازو کا نتیجہ نہیں بلکہ سراسر اللہ کی عنائت اور اس کا فضل و کرم ہے۔ اس نے قدم قدم پر مسلمانوں کی مدد فرمائی، اسی سلسلے میں بارہ تیرہ مہینے پہلے پیش آنے والا غزوہ حنین جس میں پہلے مرحلے پر مسلمانوں کے پائوں اس بری طرح سے اکھڑے کہ مسلمانوں کے رکنے اور ٹھہرنے کے تمام امکانات ختم ہوتے جارہے تھے۔ پوری فوج بری طرح تتر بتر ہوچکی تھی لیکن اس حال میں اللہ کی طرف سے سکینت نازل ہوئی آنحضرت ﷺ اور آپ کے مخلص ساتھیوں پر عزیمت و استقامت اور اللہ پر اعتماد کی وہ کیفیت نازل ہوئی جس نے ان کو تیروں کی بارش میں کھڑا رہنے کا حوصلہ دیا اور پھر ان کی برکت سے دوسرے مسلمانوں کو یہ دولت ملی اور چند ہی لمحوں میں پوری فوج نے صفیں باندھ لیں اور دشمن کو تلواروں پر رکھ لیا۔ اللہ کی طرف سے اگر یہ بروقت امداد نازل نہ ہوتی اور فرشتوں کی فوجیں مسلمانوں کے ہمرکاب نہ ہوتیں تو اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ اکھڑے ہوئے پائوں پھر جم جاتے اور بھاگنے والے لشکر کو فتح کی مسرت نصیب ہوتی۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید اور اس کے فرشتوں کی فوجیں ہمیشہ مسلمانوں کی معاونت پر ہوتی ہیں۔ لیکن جب کبھی مسلمانوں کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا یا شکست سی کوئی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس کی وجہ مسلمانوں کی اپنی کوئی نہ کوئی کوتاہی ہوتی ہے۔ اسی لیے سورة انفال کی آیت نمبر 45 تا 47 میں جو ہدایات دی گئی ہیں انھیں کامیابی کی ضمانت ٹھہرایا گیا ہے۔ جب بھی ان میں سے مسلمانوں نے کسی بات کی طرف سے صرف نظر کیا ہے تو ضرور کسی افتاد سے دوچار ہوئے ہیں۔ آیت نمبر 45 میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں ثابت قدم رہنا اور اللہ کو بہت یاد کرنا اور آیت 46 میں فرمایا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرنا، آپس میں اختلافِ رائے نہ پیدا ہونے دینا ورنہ تم کمزور و ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور ہر طرح کے حالات میں صبر کرنا اور آیت نمبر 47 میں فرمایا کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو گھروں سے اتراتے اور نمائش کرتے ہوئے نکلے۔ ان ہدایات کو اگر ایک ترتیب سے دیکھاجائے تو اس کی صورت یہ بنتی ہے : 1: ثباتِ قدم 2: کثرت سے ذکر اللہ 3: اللہ اور رسول کی اطاعت 4: تنازع سے پرہیز 5: صبر 6: اترانے اور نمائش سے احتراز دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ یہ وہ ہدایات ہیں جن پر مسلمانوں کی کامیابیوں کا دارومدار ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور آپس کا اختلاف اس قدر خطرناک ہے کہ جنگ احد میں اسی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہار میں تبدیل ہوگئی اور مسلمانوں کو ستر جنازے اٹھانے پڑے۔ غزوہ حنین میں ذکر اللہ میں کمی کے باعث اللہ کی طرف سے غفلت پیدا ہوئی اس کی قدرتوں کے استحضار کی بجائے اپنی افرادی قوت اور اپنی طاقت پر گھمنڈ پیدا ہوا اور ایک طرح سے ان لوگوں سے مشابہت پیدا ہوگئی جو اپنی قوت پر اتراتے ہوئے نکلتے ہیں اور اللہ کی قوت کو بھول جاتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ پہلے ہی مرحلے میں تمام ترافرادی کثرت اور اسلحی قوت دھری رہ گئی۔ تیروں کی ایسی بارش ہوئی کہ پوری فوج نے بھاگنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ افرادی کثرت کے باوجود کوئی انھیں پناہ دینے والا نہ تھا۔ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان کے لیے تنگ ہوگئی۔ اب اگر اللہ کی طرف سے دستگیری نہ ہوتی تو کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ مسلمانوں پر کیا قیامت گزرجاتی۔ لیکن جیسے ہی مسلمانوں کو اپنی غلطی پر تنبہ ہوا اور آنحضرت ﷺ کی ایک آواز پر اپنی سواریوں سے کود گئے تو اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی اور اس نے نہ صرف فتح مندی سے نوازا بلکہ جو کافر درانہ وار بڑھتے چلے آرہے تھے انھیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے سزا دلوائی۔ بنی ہوازن کے سترآدمی مارے گئے اور ہزاروں لوگ گرفتار ہوئے۔ تیسری بات جو آخری آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے وہ سب سے اہم معلوم ہوتی ہے اور جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گفتگو کا آغاز یہاں سے ہوا تھا کہ پروردگار نے تمام مشرکینِ عرب کو ترک تعلق اور براءت کے اعلان سے اشتعال میں مبتلا کردیا تھا۔ بہت ممکن ہے یہ اشتعال انھیں مسلمانوں کے خلاف کسی بڑے معرکہ پر آمادہ کردے اور اس طرح مسلمانوں کے لیے دشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے لیے دشواریاں پیدا نہیں ہوں گی بلکہ اللہ یہ جانتا ہے اور اس کا علم گواہی دیتا ہے کہ مشرکینِ عرب اپنی بقا کے لیے آخری کوششیں کریں گے لیکن اس کا عجیب نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ نہ صرف اس میں ناکام ہوں گے بلکہ انھیں میں سے بہت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دے گا۔ یعنی وہ ایمان قبول کریں گے اور اسلامی قافلے میں شامل ہو کر اسلام کی قوت ثابت ہوں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ بنو ہوازن اور بنو ثقیف جو فتح مکہ کے زخم کو برداشت نہیں کرپائے اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے آخری حرکت مذبوحی بھی کرڈالی۔ انھیں قبیلوں میں اللہ کی قدرت نے ایسا کیا کہ انھیں ایمان کی دولت نصیب فرمائی۔ وادیِ حنین میں شکست کھانے کے بعد یہ لوگ طائف کے پہاڑوں میں محصور ہوگئے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے چند دن تک ان کا محاصرہ جاری رکھا بالآخر محاصرہ اٹھا کر وادی جعرانہ میں تشریف لے آئے اور وہاں سے چلتے ہوئے فرمایا کہ یا اللہ انھیں ہدایت عطا فرما اور انھیں میرے پاس لے آ۔ چناچہ وادی جعرانہ میں چند دن کے بعد ان کے سردار اس حال میں آئے کہ وہ اپنے ایمان کا اعلان کررہے تھے اور آپ سے عفو و درگزر اور احسان کے خواستگار تھے۔ آخر میں فرمایا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ ” اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے “۔ مسلمانوں کی کفار سے جنگیں نہ جارحیت ہیں نہ انتقامی کوششیں بلکہ یہ اسلام کی سربلندی اور کفر کو سرنگوں کرنے کی کاوشیں ہیں تاکہ لوگ اسلام کی طرف آزادانہ بڑھ سکیں۔ اگر اسلام کے پیش نظر کافروں کو صرف سزا دینا ہوتا تو ان پر عذاب بھیج دیا جاتا۔ لیکن رحمۃ للعالمین کی تشریف آوری سراسر اللہ کی رحمت کا ظہور ہے۔ چناچہ جن لوگوں میں بھی قبولیت حق کی ذرہ بھر بھی استعداد پائی جاتی ہے، ان کی سابقہ زندگی کیسی بھی گزری ہو اللہ تعالیٰ کبھی نہ کبھی انھیں اسلام کی دولت سے مشرف فرماتے ہیں کیونکہ یہی اس کی مغفرت و رحمت کا ظہور ہے۔
Top