Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
ان میں وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے اجازت دے دیجیے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالیے، خبردار ! فتنہ میں تو وہ گر چکے ہیں بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
وَمِنْھُمْ مَنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَلَاتَفْتِنِّیْ ط اَلاَ فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْاط وَاِنَّ جَھَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌم بِالْکٰفِِرِیْنَ (التوبۃ : 49) (ان میں وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے اجازت دے دیجیے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالیے، خبردار ! فتنہ میں تو وہ گر چکے بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ ) ایک منافق کی جسارت اس آیت کریمہ میں ایسے بہانہ جو منافقین کی طرف اشارہ ہے۔ جو دوسرے منافقین کی طرح ہی حق و باطل کے معرکہ میں غیر جانبدار رہنے بلکہ لاتعلق رہنے ہی کو علم و دانش کی معراج سمجھتے تھے۔ لیکن انھوں نے کوئی اور بہانہ کرنے کی بجائے اپنے تقویٰ کو حق و باطل کے معرکے میں پیچھے رہنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ ممکن ہے اس قسم کے منافقین کی ایک معتددبہٖ تعداد ہو لیکن روایات میں جدبن قیس کا نام لیا گیا ہے۔ اس نے آکر عرض کی کہ حضور روم کی عورتیں اپنے حسن و جمال میں بہت شہرت رکھتی ہیں میں عورت کے بارے میں دل پھینک واقع ہوا ہوں۔ حسن کا مقابلہ کرنا میرے لیے بڑی آزمائش ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میں وہاں کسی گناہ میں مبتلا ہوجاؤں۔ اس لیے آپ میری کمزوری کا لحاظ کرتے ہوئے مجھے جنگ میں عدم شرکت کی اجازت دے دیں۔ اس شخص نے اپنی کسی کمزوری یا عذر کو پیچھے رہنے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ تقویٰ اور دین داری کی حفاظت کو اس کا ذریعہ بنایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے حربوں کے عجیب رنگ ہیں کسی شخص کو وہ بےدینی کے نام سے بےدین کرتا ہے اور کسی شخص کو دینداری کے نام سے گمراہی کے گڑھے میں پھینکتا ہے۔ قرآن کریم نے اس کا جواب ایک نہایت مختصر لیکن بلیغ فقرے میں دیا ہے۔ اَلاَ فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا کہ یہ منافق لوگ فتنے میں گر جانے کے خوف کو جہاد میں عدم شرکت کا عذر بنا رہے ہیں کہ اگر ہم تبوک پہنچیں تو ہوسکتا ہے وہاں کا حسن ہمیں فتنہ میں مبتلا کردے اور ہم گناہ میں مبتلا ہوجائیں۔ قرآن کریم نے کہا کہ وہاں جاکرفتنہ میں مبتلا ہونا تو دور کی بات ہے اور جس کی حقیقت وہم سے زیادہ نہیں کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کے سینے میں ایمان کا نو رہے وہ کبھی ایسے گناہ میں مبتلا نہیں ہوسکتا لیکن یہ منافق لوگ تو گھر بیٹھے ہی اس سے کہیں بڑے فتنے میں مبتلا ہوچکے ہیں کیونکہ فرائضِ دینی سے گریز اور فرار کے لیے عذر تراشنا بجائے خود ایک ایسا فتنہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور فتنہ نہیں ہوسکتا۔ غزوہ تبوک میں شرکت ایک طرف تو فریضہ دین ہے اور دوسری طرف غلبہ دین اور بقائے ملت کی کوشش ہے۔ جس میں ذرا سی کوتاہی بھی امت مسلمہ کے مستقبل کو اندھیروں میں ڈبو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے اس کی شناعت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ جو شخص ایسے ہولناک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے وہ تو فتنہ میں اوندھے منہ گرچکا اس کی تباہی کے لیے کسی اور فتنے کی ضرورت نہیں اور ایسے شخص کے کفر میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی لوگ ہیں قیامت کے دن جہنم جن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے حصار میں لے لے گا۔
Top