Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 56
وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ١ؕ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ
وَيَحْلِفُوْنَ : اور قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَمِنْكُمْ : البتہ تم میں سے وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ مِّنْكُمْ : تم میں سے وَلٰكِنَّهُمْ : اور لیکن وہ قَوْمٌ : لوگ يَّفْرَقُوْنَ : ڈرتے ہیں
اور یہ اللہ کی قسمیں اٹھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں لیکن وہ ایسی قوم ہیں جو ڈرتے رہتے ہیں۔
وَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ ط وَمَاھُمْ مِّنْکُمْ وَلٰـکِنَّھُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ لَوْیَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْمَغٰرٰتٍ اَوْمُدَّخَلًا لَّوَلَّوْااِلَیْہِ وَھُمْ یَجْمَحُوْنَ (التوبۃ : 56، 57) (اور یہ اللہ کی قسمیں اٹھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں لیکن وہ ایسی قوم ہیں جو ڈرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ کوئی ٹھکانہ یا کوئی غار یا کوئی گھس بیٹھنے کی جگہ پالیں تو وہ منہ پھیر لیں گے اس طرف منہ زوری کرتے ہوئے ) امیر منافقین کی کیفیت (مدینہ کے منافق زیادہ تر بلکہ تمام تر مالدار اور سن رسیدہ لوگ تھے۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں ان کی جو فہرست دی ہے اس میں صرف ایک نوجوان کا ذکر ملتا ہے اور غریب ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ یہ لوگ مدینہ میں جائدادیں اور پھیلے ہوئے کاروبار رکھتے تھے اور جہاندیدگی نے ان کو مصلحت پرست بنادیا تھا۔ اسلام جب مدینہ پہنچا اور آبادی کے ایک بڑے حصہ نے پورے اخلاص اور جوش ایمانی کے ساتھ اسے قبول کرلیا تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو ایک عجیب مخمصہ میں مبتلا پایا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو خود ان کے قبیلوں کی اکثریت بلکہ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں تک کو اس نئے دین نے ایمان کے نشے سے سرشار کردیا ہے۔ ان کے خلاف اگر وہ کفر و انکار پر قائم رہتے ہیں اتو ان کی ریاست، عزت، شہرت سب خاک میں مل جاتی ہے حتی کہ ان کے اپنے گھروں میں ان کے خلاف بغاوت برپا ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف اس دین کا ساتھ دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ سارے عرب سے بلکہ اطراف ونواح کی قوموں اور سلطنتوں سے بھی لڑائی مول لینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اغراض نفسانی کی بندگی نے معاملہ کے اس پہلو پر نظر کرنے کی استعداد تو ان کے اندر باقی ہی نہیں رہنے دی تھی کہ حق و صداقت بجائے خود بھی کوئی قیمتی چیز ہے جس کے عشق میں انسان خطرات مول لے سکتا ہے اور جان و مال کی قربانیاں گوارا کرسکتا ہے۔ وہ دنیا کے سارے معاملات و مسائل پر صرف مفاد اور مصلحت ہی کے لحاظ سے نگاہ ڈالنے کے خوگر ہوچکے تھے۔ اس لیے ان کو اپنے مفا د کے تحفظ کی بہترین صورت یہ نظر آئی کہ ایمان کا دعویٰ کریں تاکہ اپنی قوم کے درمیان اپنی ظاہری عزت اور اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھ سکیں مگر مخلصانہ ایمان نہ اختیار کریں تاکہ ان خطرات ونقصانات سے دوچار نہ ہوں جو اخلاص کی راہ اختیار کرنے سے لازماً پیش آنے تھے۔ ان کی اسی ذہنی کیفیت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ تمہارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نقصانات کے خوف نے انھیں زبردستی تمہارے ساتھ باندھ دیا ہے جو چیز انھیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرائیں وہ صرف یہ خوف ہے کہ مدینہ میں رہتے ہوئے علانیہ غیرمسلم بن کر رہیں تو جاہ ومنزلت ختم ہوتی ہے اور بیوی بچوں تک سے تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں۔ مدینہ کو چھوڑ دیں تو اپنی جائدادوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور ان کے اندر کفر کے لیے بھی اتنا اخلاص نہیں ہے کہ اس کی خاطر وہ ان نقصانات کو برداشت کرنے پر تیار ہوجائیں۔ اس مخمصے نے انھیں کچھ ایسا پھانس رکھا ہے کہ مجبوراً مدینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، بادل نخواستہ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور زکوٰۃ کا ” جرمانہ “ بھگت رہے ہیں ورنہ آئے دن جہاد اور آئے دن کسی نہ کسی خوفناک دشمن کے مقابلے اور آئے دن جان ومال کی قربانیوں کے مطالبے کی جو ” مصیبت “ ان پر پڑی ہوئی ہے اس سے بچنے کے لیے اس قدر بےچین ہیں کہ اگر کوئی سوراخ یا بل بھی ایسا نظر آجائے جس میں انھیں امن ملنے کی امید ہو تو یہ بھاگ کر اس میں گھس بیٹھیں۔ ) ( از تفہیم القرآن) اس آیت میں چند مشکل الفاظ ہیں جن کی تشریح ضروری ہے۔ مَلْجَاً : پناہ گاہ، ٹھکانہ مغارۃ : واحد ہے مغ اور ات کی اس کا معنی ہے چھپ کر بیٹھنے کی جگہ۔ عام طور پر غار کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ مدّخلا : وہ جگہ جس میں تکلیف سے داخل ہوا جاسکے۔ یجمحون : جمح الفرس کے معنی ہیں تغلب علی راکبہٖ وذھب بہٖ ولا ینثنی (گھوڑا سوار کے قابو سے باہر ہوگیا اور اس کو لے کر بگٹٹ بھاگا یعنی جب گھوڑا سرکشی کرتا ہے اور باگ کی پرواہ نہیں کرتا تو اس وقت یہ جملہ بولتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا جارہا ہے کہ اگر ان منافقین کو کہیں بھی جائے پناہ مل جائے تو وہ منہ زور گھوڑے کی طرح بھاگ نکلیں گے۔ مسلمان معاشرے میں رہنا ان کی مجبوری ہے اس لیے کہ کہیں ان کے لیے جائے پناہ نہیں۔ بزدل لوگ ہیں اس لیے قسمت آزمائی کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ )
Top