Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے عطا کیا تو ہم ضرور حیرات کریں گے اور خوب نیکیاں کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
وَمِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَاللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰـناَ مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ فَلَمَّآ اٰتٰـھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَ تَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوْبِھِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوْااللّٰہَ مَاوَعَدُوْہُ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ (التوبۃ : 75 تا 77) (اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے عطا کیا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور خوب نیکیاں کرنے والوں سے میں سے ہوجائیں گے۔ تو اللہ نے جب ان کو اپنے فضل میں سے عطا فرمایا تو وہ اس میں بخیل بن بیٹھے اور برگشتہ ہو کر منہ پھیرلیا۔ تو اس کی پاداش میں اللہ نے نفاق ان کے دلوں میں جما دیا اس دن تک جس دن وہ اللہ سے ملیں گے اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی اور اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ ) منافقین کے مزید چند خصائلِ بد منافقین کے مزید چند خصائلِ بد کا پیش نظر آیات کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ جن میں سرِ فہرست ان کا بخل ہے کیونکہ بخل ایک ایسا مرض ہے جو حب دنیا کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور جس کے اثرات ایسے شدید اور ہمہ گیر ہیں کہ اقدارِ انسانیت میں سے شاید کوئی قدر ایسی نہیں جو اس سے متاثر نہ ہوتی ہو۔ لیکن آیت میں مذکورہ منافقین کا بخل تو ایک خاص سبب کی وجہ سے زیادہ مکروہ اور مذمت کے لائق ہے۔ وہ سبب یہ ہے کہ ایک ایسا آدمی جس نے محنت اور ریاضت سے دولت کمائی ہو اور اس کے لیے زندگی کا بہترین حصہ صرف کرڈالاہو اور پھر اس پر بخیل بن کر بیٹھ جائے اور کسی اور کو دینے کاروادار نہ ہو تو اس کے حق میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے چونکہ اس کے لیے بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں اس لیے اسے اپنا مال بےحد عزیز ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی چنداں قابل التفات نہیں لیکن ان منافقین کا بخل اس لیے انتہائی مذمت کے قابل ہے کہ انھوں نے مال اپنی محنت سے نہیں کمایا بلکہ اللہ سے اس وعدے پر لیا کہ اگر آپ ہمیں مال عطا کردیں گے تو ہم آپ کے راستے میں دل کھول کر خرچ کریں گے اور جو نیکی بھی مال کے ذریعے ہوسکتی ہے ہم اس میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مال دے دیا تو وہ اس کے عطاکردہ مال پر مالک بن کر بیٹھ گئے۔ مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں ایک خاص واقعہ بھی بیان کیا ہے جس سے منافقین کے طرز عمل کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے کہ ایک شخص ثعلبہ ابن ابی حاطب انصاری نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میں بہت غریب آدمی ہوں نان شبینہ کا محتاج ہوں، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا کیا تم کو میرا طریقہ پسند نہیں ؟ میں چاہتا تو پہا ڑمیرے لیے سونا بنادیئے جاتے۔ لیکن میں نے اپنے لیے فقر کو پسند کیا اور پھر تم یہ بھی جانتے ہو کہ مالداری ایک آزمائش ہے تم کیوں اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنا چاہتے ہو ؟ ثعلبہ یہ سن کر چلا گیا مگر چند دنوں کے بعد پھر آیا اور پھر یہی درخواست بڑے اصرار کے ساتھ کی اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر مجھے مال مل گیا تو میں ہر حق والے کو اس کا حق پہنچائوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اللہ نے قبول کی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ دنوں ہی میں اس کی بکریوں میں بےپناہ اضافہ ہوگیا۔ یہاں تک کہ مدینہ کی آبادی اس کے لیے تنگ ہوگئی۔ اس نے مضافات میں کچھ جگہ لی اور وہاں منتقل ہوگیا۔ دور ہونے کی وجہ سے صرف ظہر اور عصر کی دو نمازیں مسجد نبوی میں آکر ادا کرتا باقی نمازیں اپنی قیام گاہ پر ہی پڑھتا۔ پھر اس کے ریوڑوں میں اور اضافہ ہوا تو یہ جگہ بھی اس کے لیے ناکافی ہوگئی اب وہ مدینہ سے دو رنکل گیا اور کسی کھلی جگہ میں اپنے ریوڑوں کا انتظام کیا۔ لیکن اب صرف جمعہ کی نماز کے لیے مدینہ میں آتا پھر مال میں اور اضافہ ہوا تو وہ اب اتنی دور نکل گیا کہ جمعہ سے بھی محروم ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے اس کا حال دریافت کیا تو لوگوں نے بتلایا کہ اس کے مال میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ شہر کے قریب اس کا رہنا ناممکن ہوگیا ہے اس لیے وہ کسی دور جگہ جاکر بس گیا ہے۔ اسی لیے یہاں نظر نہیں آتا۔ آپ نے یہ سن کر تین مرتبہ فرمایا : ویح ثعلبہافسوس ہے ثعلبہ پر۔ اتفاق سے اسی زمانہ میں آیت صدقات نازل ہوگئی جس میں رسول اللہ ﷺ کو مسلمانوں سے زکوٰۃ و صدقات وصول کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ آپ نے صدقات کی وصولی کا مکمل قانون لکھواکر دو شخصوں کو عامل بنایا اور ان کو زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھیج دیا اور یہ بھی حکم دیا کہ ثعلبہ بن حاطب کے پاس بھی پہنچیں اور بنی سلیم کے ایک اور شخص کے پاس جانے کا بھی حکم دیا۔ جب یہ دونوں عامل ثعلبہ کے پاس پہنچے اور آنحضرت کا فرمان دکھایا۔ تو ثعلبہ کہنے لگا کہ یہ تو وہ جزیہ ہے جو غیر مسلموں پر لگایا جاتا ہے تو کیا ہم پر بھی جزیہ لگادیا گیا ہے اور پھر کہا کہ اچھا آپ آگے جائیں واپسی پر یہاں سے بھی ہوتے جائیں۔ پھر یہ دونوں شخص بنی سلیم کے اس آدمی کے پاس پہنچے جس کے پاس جانے کا آنحضرت ﷺ نے حکم دیا تھا۔ جب اس نے آپ کا فرمان سنا تو اپنے بہترین مویشی اس نے زکوٰۃ کے لیے پیش کیئے۔ عاملوں نے کہا کہ ہمیں آنحضرت کا حکم یہ ہے کہ جانوروں میں اعلیٰ درجہ کے جانور چھانٹ کر نہ لیں بلکہ متوسط وصول کریں، اس لیے ہم یہ نہیں لے سکتے۔ سلیمی نے اصرار کیا کہ میں اپنی خوشی سے یہی پیش کرنا چاہتا ہوں چناچہ انھوں نے یہی جانور قبول کرلیئے۔ پھر یہ دونوں حضرات دوسرے مسلمانوں سے صدقات وصول کرتے ہوئے واپس ثعلبہ کے پاس پہنچے۔ تو اس نے کہا لائو وہ قانونِ صدقات مجھے دکھلائو۔ دیکھ کر کہنے لگا : انھی الاجزیہ ” یہ تو وہی ٹیکس ہوا جو ذمیوں سے لیا جاتا ہے “۔ کہا چلو اب تم جاؤ میں غور کرکے کچھ فیصلہ کروں گا۔ جب یہ دونوں حضرات واپس مدینہ طیبہ پہنچے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے حالات پوچھنے سے پہلے ہی فرمایا۔ یاویح ثعلبہ یاویح ثعلبہ یاویح ثعلبہ یعنی ثعلبہ پر سخت افسوس ہے۔ یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا۔ پھر سلیمی کے معاملہ پر خوش ہو کر اس کے لیے دعا فرمائی۔ ابنِ جریر نے اس روایت کے آخر میں لکھا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے ثعلبہ کے لیے تین مرتبہیاویح ثعلبہ فرمایا تو اس مجلس میں ثعلبہ کے کچھ عزیزواقارب بھی تھے۔ ان میں سے ایک آدمی فوراً ثعلبہ کے پاس پہنچا اور اس کو ملامت کی اور اسے بتلایا کہ تیرے جیسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی ہے۔ یہ سن کر ثعلبہ گھبرایا اور مدینہ حاضر ہو کر درخواست کی کہ میرا صدقہ قبول کرلیا جائے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ سن کر ثعلبہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اب خاک ڈالنے سے کیا فائدہ یہ تو تمہارے اپنے عمل کا نتیجہ ہے۔ میں نے تمہیں حکم دیا تم نے اطاعت نہ کی اب تمہارا صدقہ قبول نہیں ہوسکتا۔ ثعلبہ ناکام واپس ہوگیا اس کے کچھ دن بعد رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور صدیق اکبر ( رض) خلیفہ ہوئے تو ثعلبہ صدیق اکبر ( رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور صدقہ کی قبولیت کی درخواست کی۔ حضرت ابوبکر ( رض) نے فرمایا کہ جس مال کو آنحضرت ﷺ نے قبول کرنے سے انکار کیا ہو میں اسے کیسے قبول کرسکتا ہوں۔ ثعلبہ کو اللہ تعالیٰ نے بطورعبرت حضرت عثمانِ غنی ( رض) کے زمانے تک زندہ رکھا۔ لیکن اس کے مال زکوٰۃ کو نہ حضرت عمر فاروق ( رض) نے قبول فرمایا نہ حضرت عثمانِ غنی ( رض) نے۔ اس کے بعد وہ وہیں پہاڑوں میں مرکھپ گیا کسی نے اس کی شکل نہ دیکھی۔ چناچہ اسی سلسلے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے انسان کی اس کمزوری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب تک کوئی چیز انسان کے پاس نہیں ہوتی تو وہ تمنا کرتا ہے کہ اگر یہ مجھے حاصل ہوجائے تو میں دوسروں کی طرح اسے غلط مقصد میں استعمال نہیں کروں گا بلکہ اس کے صحیح مصرف میں استعمال کرتے ہوئے ایک مثال قائم کروں گا لیکن جب وہ چیز اللہ تعالیٰ عطا فرما دیتا ہے تو نعمت کے مل جانے کے بعد اسے یاد بھی نہیں ہوتا کہ میں نے یہ نعمت اللہ سے مانگ مانگ کرلی تھی اور اس وعدے پر لی تھی کہ میں واقعی اس کا حق ادا کروں گا اور اسے کسی غلط مصرف میں خرچ نہیں کروں گا۔ ثعلبہ نے بھی ایسے ہی وعدوں سے مال لیا لیکن مال مل جانے کے بعد اس کا مالک بن کر بیٹھ گیا۔ وہ بالکل بھول گیا کہ اس کا مالک میں نہیں بلکہ اللہ ہے۔ میرے پاس یہ مال تو امانت ہے۔ میرے لیے لازم ہے کہ میں امانت میں خیانت نہ کروں اسے وہاں خرچ کروں اور ویسے خرچ کروں جس طرح اس کے مالک نے مجھے ہدایت بخشی ہے۔ تیسری آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ بعض اعمالِ بد ایسے ہیں جن کے نتیجے میں دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے اور اگر وہ اعمالِ بد جاری رہتے ہیں تو پھر ایسے اعمال کے کرنے والے سے قبولیتِ حق کی استعداد چھین لی جاتی ہے چناچہ ثعلبہ جیسے لوگ ایسے ہی اعمال کی پاداش میں اس نفاق کا شکار ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ موت تک یہ نفاق ان کے دلوں میں ایسا جما دیتا ہے کہ کبھی انھیں اس سے نکلنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں بخل کے علاوہ مزید دو خصائلِ بد کا ذکر فرمایا گیا ہے اور ان دونوں کو بھی نفاق پیدا کرنے کا سبب قرار دیا۔ یہ دو خصائلِ بد ہیں وعدے کی خلاف ورزی اور جھوٹ بولنا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں خصلتیں ایسی ہیں جو آپس میں لازم وملزوم ہیں جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ نقض عہد بھی کرتا ہے اور جو نقض عہد کرتا ہے وہ جھوٹ بھی بولتا ہے اور گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ دونوں خصلتیں نفاق پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہیں اور نفاق کی علامت بھی ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں آنحضرت ﷺ نے منافق کی تین علامتیں بیان فرمائی ہیں جن میں سے دو یہی ہیں اور تیسری امانت میں خیانت ہے۔ امانت میں خیانت بھی درحقیقت جھوٹ ہی کا ایک پہلو ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے، آمین۔
Top