Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 79
اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ١ؕ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ١٘ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَلْمِزُوْنَ : عیب لگاتے ہیں الْمُطَّوِّعِيْنَ : خوشی سے کرتے ہیں مِنَ : سے (جو) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقہ (جمع) خیرات وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے اِلَّا : مگر جُهْدَهُمْ : اپنی محنت فَيَسْخَرُوْنَ : وہ مذاق کرتے ہیں مِنْهُمْ : ان سے سَخِرَ : مذاق (کا جواب دیا) اللّٰهُ : اللہ مِنْهُمْ : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
وہ لوگ جو طعن کرتے ہیں ان مسلمانوں پر جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان پر جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے پھر ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں اللہ نے ان کا مذاق اڑایا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ اِلَّاجُھْدَھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْط سَخِرَاللّٰہُ مِنْھُمْ ز وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (التوبۃ : 79) (وہ لوگ جو طعن کرتے ہیں ان مسلمانوں پر جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان پر جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے پھر ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں اللہ نے ان کا مذاق اڑایا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ) مُتَطَوِّعْ اور مُطَّوِّعْ دونوں ایک ہی لفظ ہیں۔ یہ اس شخص کو کہتے ہیں جو صرف فرائض وواجبات ہی ادا کرلینے پر قناعت نہ کرے بلکہ اپنی خوشی اور حوصلہ مندی سے نفلی نیکیوں میں بھی بڑھ چڑھ کا حصہ لے۔ لمز کے معنی عیب لگانا، ہجو کرنا، مذمت کرنا۔ پیچھے منافقین کے بخل کا ذکر ہوا اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ منافقین صرف اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہی گریز نہیں کرتے بلکہ انھیں تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے بھی اچھے نہیں لگتے۔ جسے بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے راستے میں خرچ کررہا ہے اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس پر عیب لگاتے ہیں، مذمت کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے جب مسجد نبوی میں منبر پر تشریف فرماہوکر جنگ تبوک کی تیاری کے سلسلہ میں لوگوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم فرمایا اور اس راستے میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی اپیل فرمائی تو آپ کی اپیل پر دولت مند بھی آگے بڑھے اور غریب لوگ بھی۔ حضرت عثمانِ غنی ( رض) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ( رض) جیسے اغنیا نے دل کھول کر امداد فرمائی اشرفیاں پیش کیں۔ ایک بہت بڑی تعداد میں مجاہدین کے لیے گھوڑے اور اسلحہ جنگ پیش کیا اور مجاہدین کو مسلح کرنے کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کی۔ حضرت صدیق اکبر ( رض) نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ پیش کردیا۔ حضرت عمرفاروق ( رض) اپنی ملکیت کا نصف حصہ اٹھالائے اور خدمت میں پیش کردیا۔ منافقین کی ٹولی ایک طرف بیٹھی ان اغنیا کو دیکھتی تھی کہ کس طرح بڑھ چڑھ کر انفاق کررہے ہیں لیکن بجائے اظہارِ تحسین کرنے کے وہ ان پر شہرت کی ہوس کا الزام رکھتے تھے۔ جو بھی آگے بڑھ کر کوئی بڑی رقم پیش کرتا تو وہ کہتے کہ یہ ریاکار اور شہرت پسند ہے اور اپنی دینداری کی شہرت چاہتا ہے اور لوگوں میں سخی مشہور ہونا چاہتا ہے۔ اس طرح سے لوگوں میں حوصلہ شکنی کی فضا پیدا کرتے اور ساتھ ہی ساتھ نیکی کے اثر کو پھبتیوں میں اڑانے کی کوشش کرتے اور جب وہ دیکھتے کہ کوئی غریب آدمی دن بھر یا رات بھر محنت کرکے جو کچھ بھی کما سکا ہے وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اٹھا لایا ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر کیسی خوش دلی کے ساتھ اللہ کے راستے میں معمولی سوغات پیش کررہا ہے۔ کوئی سیرآدھ سیر کھجور لارہا ہے اور کوئی جو کی پوٹلی باندھے ہوئے آرہا ہے تو بجائے ان کے جذبہ اخلاص کو دیکھنے کے یہ منافقین غصہ سے تلملاتے اور طعن وتشنیع سے اپنا غبار نکالنے کی کوشش کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ لیجئے صاحب یہی وہ مال ہے جس سے ماشاء اللہ جنگ لڑی جائے گی جس کے نتیجے میں قیصر کا تخت وتاج الٹ جائے گا۔ ٹڈی کی ٹانگوں سے قلعے مسمار کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ بظاہر اللہ کے راستے میں خیرات کرنے والوں کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن انھیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کا مذاق اڑارہا ہے۔ وہ لوگ تو اپنے انفاق کے بدلے میں دولت کونین خرید رہے ہیں۔ جو ہزاروں اشرفیاں دے رہا ہے وہ بھی اللہ کی رضا چاہتا ہے اور جو آدھ سیر کھجور لے کر آیا ہے وہ بھی اللہ کی رضا کا طالب ہے۔ دونوں جنت کے حصول کے خواہش مند ہیں لیکن یہ مذاق اڑانے والے منافقین انھیں معلوم نہیں کہ اللہ کی طرف سے ان کی جو رسی دراز کی جارہی ہے وہ دراصل ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے کہ تم خوش فعلیاں کرلو، کلیلیں بھر لو، تمہیں معلوم نہیں کہ قدرت کی جب پکڑ آئے گی تو ایسی جگہ سے اور اس طرح سے آئے گی جہاں سے تمہیں سان گمان بھی نہیں ہوگا اور بالآخر اللہ کا عذاب الیم تمہارے انتظار میں ہے۔
Top