Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 16
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ
وَلَا تُصَلِّ : اور نہ پڑھنا نماز عَلٰٓي : پر اَحَدٍ : کوئی مِّنْهُمْ : ان سے مَّاتَ : مرگیا اَبَدًا : کبھی وَّلَا تَقُمْ : اور نہ کھڑے ہونا عَلٰي : پر قَبْرِهٖ : اس کی قبر اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَمَاتُوْا : اور وہ مرے وَهُمْ : جبکہ وہ فٰسِقُوْنَ : نافرمان
آپ نماز نہ پڑھیں ان میں سے کسی پر جو مرجائے کبھی بھی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بیشک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور وہ مرے اس حال میں کہ وہ بدعہد اور سرکش تھے۔
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖط اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَا تُوْا وَھُمْ فٰسِقُوْنَ (التوبۃ : 84) (آپ نماز نہ پڑھیں ان میں سے کسی پر جو مرجائے کبھی بھی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں بیشک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور وہ مرے اس حال میں کہ وہ بد عہد اور سرکش تھے۔ ) منافقین سے آخری قطع تعلق گزشتہ رکوع میں نبی کریم ﷺ کو منافقین کے لیے سخت ہوجانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کی آیات میں ہم نے اسی سختی کے چند مظاہر پڑھے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس حکم کا آخری اور سخت ترین مظہر ہے۔ ایک آدمی جو کسی نظریاتی جماعت سے وابستہ ہوچکا ہے اور انہی کے ساتھ وہ اپنا حقیقی رشتہ محسوس کرتا ہے جب تک وہ زندہ ہے وہ ان کی تقریبات کا ساتھی، ان کی مجلسوں کا شریک، ان کے دکھ درد میں رفیق، ان کی خوشیوں میں ممد ومعاون اور انہی کی رفاقت و محبت کے حصار میں اپنے آپ کو محصور سمجھتا ہے۔ وہ جائز طور پر یہ سمجھتا ہے کہ میرے جماعتی احباب میرے دست وبازو ہوں اور انہی کے ساتھ میری زندگی ہے اور اس کی آخری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جب میں دنیا سے آخرت کا سفر کروں تو میرے جماعتی ارکان اور دوست اور میرے بھائی میری تکفین و تدفین میں شریک ہوں اور انہی کے ہاتھوں میری لاش لحد میں اتاری جائے۔ گزشتہ آیات میں منافقین کے ساتھ زندگی کے تمام رشتے ایک ایک کرکے کاٹ دیئے گئے۔ آخری رشتہ اس کے لیے دعائے استغفار یعنی نماز جنازہ تھی۔ اجمالی حکم تو گزشتہ رکوع کے آخر میں دے دیا گیا تھا۔ پیش نظر آیت کی صورت میں آخری اور تفصیلی حکم دے دیا گیا کہ آپ مسلمانوں کے لیے ماویٰ اور ملجا ہیں۔ آپ کی دعا ان کے لیے باعث سکون ہے۔ آپ کا ان کے لیے نمازجنازہ پڑھنا شفاعت سے کم نہیں۔ اس آخری تعلق کو توڑتے ہوئے حکم دیا جارہا ہے کہ اب آپ ان کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھیں گے اور آپ ان کی قبر پر کھڑے بھی نہیں ہوں گے۔ قبر پر کھڑے ہونے کا مطلب قبر کے قریب کھڑ اہونا یا صاحب قبر کے لیے دعائے استغفار کرنا ہے۔ استغفار سے پہلے روک دیا گیا ہے۔ اب کھڑے ہونے سے بھی روکا جارہا ہے کیونکہ جہاں اللہ کے رسول کھڑے ہوں وہاں عذاب ہونا ایک مستبعد سی بات ہے۔ شان نزول سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو ان کے صاحبزادے جو نہایت مخلص مسلمان تھے اور جن کا نام بھی عبداللہ تھا انھوں نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ آپ کفن کے لیے اپنا کرتہ عطا فرمائیں تاکہ اسے کفن میں شامل کردیاجائے، ہوسکتا ہے کہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے اور یہ بھی التجا کی کہ آپ میرے باپ کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آنحضرت ﷺ نے وعدہ فرما لیا۔ چناچہ آپ نماز جنازہ پڑھانے کے لیے قبرستان پہنچے تو حضرت عمر فاروق ( رض) نے باصرار آپ سے التجا کی کہ حضور آپ اس شخص کی نماز جنازہ کیونکر پڑھاتے ہیں جبکہ اس نے گزشتہ سالوں میں مختلف مراحل پر اسلام اور مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور اس کا نفاق ایسا کھلا ہے کہ اسے رئیس المنافقین کہا جاتا ہے اور پھر یہ بات بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے استغفار کرنے سے منع فرمایا ہے اور نماز جنازہ استغفار ہی تو ہے۔ لیکن آپ پر چونکہ رحمت کا غلبہ رہتا تھا اور آپ یہ خیال فرماتے تھے کہ اگر میری وجہ سے کوئی شخص اللہ کے عذاب سے محفوظ ہوجاتا ہے تو اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہے، چناچہ آپ نے حضرت عمر ( رض) کی باتیں سنیں اور مسکراتے رہے۔ البتہ ! یہ فرمایا کہ مجھے میرے اللہ نے استغفار کا اختیار دیا ہے میں اس اختیار سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں رہی یہ بات کہ اللہ اسے قبول کرے گا یا نہیں تو یہ سراسر اللہ کی مشیت کا معاملہ ہے چناچہ آپ نے عبداللہ بن ابی کی نمازجنازہ پڑھائی اور اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس میں آئندہ کے لیے حکم دے دیا گیا کہ نہ آپ ان میں سے کسی کی نماز جنازہ پڑھائیں اور نہ ان میں سے کسی کی قبر پر کھڑے ہوں۔ پھر اس کے بعد ممانعت کی علت بھی بیان فرمائی کہ آپ کو نماز پڑھنے سے اس لیے روکا جارہا ہے کہ یہ لوگ زندگی بھر اللہ اور اس کے رسول کے منکر رہے اور ان کی موت اس حال میں آئی کہ وہ فاسق اور عہد شکن لوگ تھے۔ اگرچہ وہ ایمان کا دعویٰ رکھتے تھے اور اسلام کے بعض رسوم بھی ادا کرتے تھے لیکن ان کے دل ایمان سے خالی اور عہد وفا سے کوسوں دور تھے۔ منافقین سے مکمل ترک تعلق کی یقینا یہی وجہ ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے۔ اس کی موجودگی میں نہ ان سے جماعتی تعلقات رکھے جاسکتے ہیں اور نہ ان کے لیے دعائے مغفرت کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کی دوسری وجہ بھی ہے جس کا تعلق اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت سے ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب منافقین سے مکمل ترک تعلق کرلیا جائے گا اور ان کی نماز جنازہ تک نہیں پڑھی جائے گی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی جماعت میں منافقین کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا اور مسلمانوں کے رویے کو دیکھتے ہوئے ان کی ہمتیں ٹوٹ جائیں گی اور عام مسلمان ان سے نفرت کرنے لگیں گے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ مسلمانوں میں نفاق کے اثرات پھیلانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اسی مصلحت سے اہل علم نے یہ استنباط کیا ہے کہ ایسے فساق اور فجار جن کا فسق وفجور مسلمانوں میں مشہور ہو اور جن کے خلاف اسلام اقوال و اعمال سے عام مسلمان واقف ہوں۔ تو مسلمانوں کے امام اور ان کے سربرآوردہ لوگوں کو ایسے لوگوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے تاکہ لوگوں میں یہ شعور پیداہو کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ مخلص نہ ہوں اور شریعتِ اسلامی کا احترام تو ایک طرف رہا اس کے بارے میں زبان کھولنے میں بھی غیر محتاط ہوں اور شعائرِ اسلام کا احترام تک ان کی وجہ سے محفوظ نہ ہو تو مسلمان معاشرے میں ایسے لوگوں کی عزت افزائی اور ان کی نماز جنازہ میں بڑے لوگوں کی شرکت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان کی عزت اور عظمت اسلام کی عزت و عظمت سے زیادہ ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے پھر مسلمان معاشرے میں اسلامی اقدار سرنگوں ہوجائیں گی اور اسلامی پابندیوں سے آزاد لوگ مسلمانوں کی راہنمائی کے منصب پر فائز ہوجائیں گے۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ معمول ہوگیا تھا کہ جب آپ کو کسی جنازے میں تشریف لانے کے لیے کہا جاتا تو آپ پہلے مرنے والے کے متعلق دریافت فرماتے اگر معلوم ہوتا کہ وہ برے چلن کا آدمی تھا تو آپ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے تھے اور میت کے گھر والوں سے فرمادیتے تھے کہ تم اپنے طور سے اس کی نماز جنازہ پڑھ لو۔ عبداللہ بن ابی کے واقعہ میں ہم نے یہ پڑھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے کفن میں لگانے کے لیے اپنی قمیص عطا فرمائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس کانفاق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا اور آنحضرت ﷺ اس کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے تھے۔ باایں ہمہ ! آپ نے اپنی قمیض دینا پسند کیوں فرمائی ؟ اہل علم نے اس کے مختلف جواب دیئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ جانتے تھے کہ اس کے کفن میں میری قمیض لگادینے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے باوجود آپ نے محض ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ جو مخلص مسلمان تھے، کی دلجوئی کے لیے اپنی قمیض عطا فرمائی تھی۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ آپ کے پیش نظر دینی مصلحت تھی۔ آپ جانتے تھے کہ وہ چونکہ حالت نفاق میں مرا ہے اور قرآن کریم نے اس کے کفر کی گواہی دی ہے۔ اس لیے اس کی مغفرت کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ ! اس کے ساتھ اس بھلائی اور مروت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں پرا بھی تک اس کے اثرات ہیں، وہ یقینا اس سے متاثر ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ وہ مخلصانہ اسلام کی آغوش میں آجائیں۔ چناچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی توقع کے عین مطابق ایک معتد بہٖ تعداد دائرہ اسلام میں محض اس حسن اخلاق کی وجہ سے داخل ہوئی۔ اہلِ علم نے قمیص دینے کی ایک اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ جنگ بدر میں حضرت عباس ( رض) اس حال میں گرفتار ہوئے کہ ان کی قمیص پھٹ چکی تھی اور وہ تن سے ننگے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ انھیں کرتہ پہنایا جائے آپ چونکہ دراز قامت تھے، اس لیے کسی کا کرتہ انھیں پورا نہ آیا۔ عبداللہ بن ابی کا قد بھی لمبا تھا چناچہ اس نے اپنا کرتہ حضرت عباس ( رض) کو پہننے کے لیے دیا اور وہ آپ کی قامت پر پورا اترا۔ آنحضرت ﷺ نے اس احسان کو اپنے اوپر احسان سمجھا کیونکہ وہ آپ کے حقیقی چچا تھے۔ چناچہ آپ نے اس احسان کو بدلہ اتارنے کے لیے اپنا کرتہ عطا فرمایا۔
Top