Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 97
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اَلْاَعْرَابُ : دیہاتی اَشَدُّ : بہت سخت كُفْرًا : کفر میں وَّنِفَاقًا : اور نفاق میں وَّاَجْدَرُ : اور زیادہ لائق اَلَّا يَعْلَمُوْا : کہ وہ نہ جانیں حُدُوْدَ : احکام مَآ : جو اَنْزَلَ : نازل کیے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنا رسول وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
بدو لوگ کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور زیادہ لائق ہیں اس بات کے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ اتارا ہے اس کی حدود سے بیخبر رہیں اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑا دانا ہے۔
اَ لْاَعْرَابُ اَشَدُّکُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّ اَجْدَرُاَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مآ اَنَزْلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہٖ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (التوبہ : 97) (بدو لوگ کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور زیادہ لائق ہیں اس بات کے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ اتارا ہے اس کی حدود سے بیخبر رہیں اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑا دانا ہے۔ ) اس سے پہلے زیادہ تر منافقین ِمدینہ کا تذکرہ ہوا اب ان منافقین کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جو دیہات اور صحرا میں آباد تھے ہم اس سے پہلے یہ عرض کرچکے ہیں کہ مدینہ منورہ کے اطراف وصحرا میں جو لوگ آباد تھے انھیں اعراب اور بدو کہا جاتا تھا یہ لوگ اپنے معتقدات خیالات اور طور اطوار میں بڑے شدید اور جامد واقع ہوئے تھے آباو اجداد کی روایت کو اپنے لیے حرف آخر سمجھتے تھے ابتدائی سالوں میں انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جب اسلام اور کفر میں تصادم شدید ہوگیا تو ان کی ساری ہمدریاں مشرکین کے ساتھ تھیں یہ درپردہ ان کی حمایت کرتے تھے جب انھوں نے دیکھا کہ اسلام ایک غالب قوت میں تبدیل ہوگیا ہے اور مسلمانوں کی نو زائیدہ مملکت ایک مضبوط ریاست کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ تو انھوں نے شروع میں مسلمانوں کے ساتھ تعلقات پیدا کیے اور پھر رفتہ رفتہ بظاہر اسلام کے دائرے میں آگئے لیکن ان کی اکثریت اپنے خیالات کے اعتبار سے کافر و مشرک ہی رہی جنگ تبوک میں نفیر عام ہونے کے باعث سب کے لیے نکلنا لازم ہوگیا ان کا نفاق اور کھل کر سامنے آیا سورة توبہ میں چونکہ مسلمانوں کے مخالف تمام گروہوں سے متعلق پالیسی کا علان ہو رہا ہے۔ تو جہاں دوسرے منافقین کے حالات واطوار اور علامات کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے وہیں ان اعراب کے بارے میں بھی مسلمانوں کو واضح طور پر بتایا جا رہا ہے کہ ان سے معاملہ کرتے ہوئے تمہارے سامنے یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ لوگ دیگر منافقین کی طرح صرف دو چہرے نہیں رکھتے اور صرف دھوکہ دہی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کے اندر ایک جمو د کی شدت پائی جاتی ہے یہ سیاسی طور پر تو مسلمانوں کے ماتحت رہ سکتے ہیں۔ لیکن کفر اور نفاق سے یکسر لاتعلق ہوجانا ان کے لیے انتہائی مشکل ہے یہ اگرچہ دین سے وفا داری کا دم بھرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ دین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے چونکہ انھوں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہو کر یا مسلمانوں سے مل جل کر دین سیکھنے کی کوشش نہیں کی اگر ایسا کرتے تو ممکن ہے کہ ان کے اندر تبدیلی واقع ہوتی اور ان کے اکھڑ پن میں تبدیلی آتی ان باتوں سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے اور ان کے طبعی خواص اور دین سے لاتعلقی سے پیش نظر رکھنا چاہیے ایسا لگتا ہے کہ خلافت صدیقی میں ارتداد اور منع زکوٰۃ کا جو فتنہ اٹھا اس کی طرف اشارہ کی جا رہا ہے کیونکہ اس فتنے میں اہم کردار انہی اعراب کا تھا لیکن یہ بات ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ بالآخر یہ لوگ اسلام کی قوت ثابت ہوئے آخر آیت میں علیم اور حکیم کی صفت لا کر شاید اسی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے۔
Top