وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ ۔ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ ۔ (النشرح : 2، 3)
(اور ہم نے اتار دیا ہے آپ سے آپ کا بوجھ۔ جو آپ کی کمر توڑے ڈال رہا تھا۔ )
نبوت اور نزول قرآن نے آپ کے شدید احساس کا بند تالا کھول دیا
نبوت سے پہلے اپنی طبع سلیم اور خداداد معصومیت کے باعث نہ صرف کہ کسی ایسے کام کے قریب نہیں جاتے تھے جن کاموں میں آپ کی قوم ملوث تھی، بلکہ آپ ان کاموں سے ایسی گھن محسوس کرتے تھے جس طرح ایک صاف ستھرا اور مہذب آدمی گندگی سے گھن محسوس کرتا ہے۔ آپ دیکھتے تھے کہ بےجان بتوں کو پوجا جارہا ہے، شرک اور مشرکانہ اوہام اور رسوم کا بازار گرم ہے، اخلاق کی گندگی اور بےحیائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے، قمار بازی اور شراب نوشی میں اپنی صحت و دولت کو برباد کیا جارہا ہے، غریبوں پر ظلم توڑے جارہے ہیں اور ان کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے، لڑکیاں زندہ دفن کی جارہی ہے، قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے ہیں، باہمی جنگ وجدال اور قتل و غارت، اخلاقی پستی، معاشی بدحالی اور سیاسی ابتری کو دیکھ کر حضور کا دل کڑھتا تھا۔ اور آپ کا یہ اضطراب روز بہ روز بڑھتا جارہا تھا۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس صورتحال کو کس طرح بدلا جائے۔ اس بگاڑ کو دور کرنے کی آپ کو کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی۔ یہی فکر تھی جو آپ کی کمر توڑے ڈال رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ کو ایک صحیفہ رشد و ہدایت عطا فرمایا، دین اسلام جیسا جامع اور مکمل نظام حیات مرحمت فرمایا اور توحید اور آخرت اور رسالت پر ایمان کی شہ کلید دے کر انسانی زندگی کے ہر بند تالے کو کھولنے کا امکان پیدا کردیا۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوگیا کہ اس سے انسانوں کی قسمت بدلی جاسکتی ہے اور پوری نوع انسانی کی ان خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے جس نے انسانوں کی قسمت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس بوجھ کو ہلکا کردیا جس نے آپ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور آپ کو گراں بار کردیا تھا۔