فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۔ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ ۔ (النشرح : 7، 8)
(اور جب آپ فارغ ہوں تو کمربستہ ہوجائیں۔ اور اپنے رب کی طرف راغب ہوجائیں۔ )
آخری منزل کے لیے جدوجہد
فَانْصَبْ ، نَصَبَ سے امر ہے۔ اس کا معنی ہے ایسا کام کرنا جس کے کرنے سے تھکاوٹ ہوجائے۔ اس لیے اس کا ترجمہ جدوجہد اور محنت کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جب آپ اپنے مشاغل سے فارغ ہوجائیں وہ مشاغل دعوت و تبلیغ سے متعلق ہوں یا مسلمانوں کی تعلیم و تربیت سے، یا ان کا تعلق دنیوی کاموں سے ہو تو اس فراغت میں آپ کا کام سستانا اور آرام کرنا نہیں بلکہ ایک کام سے فارغ ہونے کے بعد اس کے شکر کے طور پر دوسرے کام میں لگ جانا ہے۔ آپ دعوت و تبلیغ سے فارغ ہوتے ہیں تو تعلیم و تربیت کے کام میں لگ جایئے، اس سے فرصت ہوتی ہے تو عبادت میں مصروف ہوجایئے۔ اسی کی تائید میں علامہ ابن جریر طبری نے حضرت ابن عباس ( رض) سے اس کا یہ مفہوم نقل کیا ہے کہ جب آپ نماز ادا کرنے سے فارغ ہوجائیں تو بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگنا شروع کردیں۔ گویا آنحضرت ﷺ کے واسطے سے امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمہاری زندگی جدوجہد اور محنت سے عبارت ہے۔ نہ فضول کاموں میں اشتغال آپ کو زیب دیتا ہے اور نہ فارغ بیٹھ رہنا مومن کی شان ہے۔ اسی لیے حضرت فاروقِ اعظم ( رض) فرمایا کرتے تھے کہ ” میں اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہوں کہ میں تمہیں نکما بیٹھے ہوئے دیکھوں کہ نہ تم دنیا کا کام کررہے ہو اور نہ تم اپنی آخرت کو سنوار رہے ہو۔ “ اور کام بھی ایسا ہونا چاہیے فَانْصَبْ کا لفظ جس پر دلالت کر رہا ہے۔ یعنی ایسا کام جو ایک فرد کرے تو اسے تھکا دے اور جماعت کرے تو وہ بھی مشقت کے مراحل سے گزرے۔ ظاہر ہے یہ وہ کام ہیں جو اولولعزمی سے کیے جاتے ہیں۔ اور یہ وہ مہمیں ہیں جو بڑی محنت اور ریاضت سے سر کی جاتی ہیں اور جن کے لیے جگر پاشیوں اور شب بیداریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وہ تربیت تھی جس نے مسلمانوں کو محنتی، جفاکش اور اولولعزم بنایا تھا اور جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر ہوا کی طرح پھیل گئے اور بہار بن کے چھا گئے۔
دوسری آیت میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق نہایت اخلاص سے جب آپ اور آپ کے صحابہ محنت و ریاضت اور جدوجہد کے کاموں سے فارغ ہوجائیں یعنی جب وہ مرحلہ آجائے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت بےنقاب ہوجائے، مکہ فتح ہوجائے اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگیں۔ تو پھر آپ آخرت کی تیاری کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ اگرچہ پیغمبر کا کوئی کام آخرت کی تیاری سے غیرمتعلق نہیں ہوتا، لیکن ان کاموں میں بہرحال اللہ تعالیٰ کے بندوں سے واسطہ رہتا ہے اور کبھی لادینی قوتوں سے کشمکش رہتی ہے۔ لیکن یہ کشمکش جب اپنے انجام کو پہنچ جائے یعنی لادینیت گھٹنے ٹیک دے تو پھر اللہ تعالیٰ کے رسول کو حکم دیا جاتا ہے کہ اب آپ اپنے فرائض کے حوالے سے آخری منزل پر پہنچ گئے ہیں لیکن یہ وقت کمر کھول دینے کا نہیں بلکہ اپنے رب سے ملاقات کی منزل کی طرف تیاری کے لیے مزید اہتمام کا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو سورة النصر میں زیادہ وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمائی گئی ہے۔ وہاں اس کی مزید وضاحت آئے گی، انشاء اللہ تعالیٰ ۔