Tafseer-e-Saadi - Yunus : 25
وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ١ؕ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ يَدْعُوْٓا : بلاتا ہے اِلٰى : طرف دَارِ السَّلٰمِ : سلامتی کا گھر وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔
آیت : (25-26) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سلامتی کے گھر کی طرف عام دعوت اور اس اس کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ وہ جس کو اپنے لئے خالص کر کے چن لینا چاہتا ہے اس کیلئے ہدایت کو مخصوص کردیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اس کے لئے اپنی رحمت کو مختص کردیتا ہے ‘ یہ اس کا عدل و حکمت ہے اور حق و باطل کو بیان کردینے اور رسولوں کو مبعوث کرنے کے بعد کسی کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ” دارالسلام “ کے نام سے اس لئے موسوم کیا ہے کہ یہ تمام آفات اور نقائص سے محفوظ اور سلامت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نعمتیں کامل ‘ ہمیشہ رہنے والی اور ہر طرح سے خوبصورت ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سلامتی کے گھر کی طرف بلایا تو گویا ان نفوس کو ان اعمال کا اشتیاق پیدا ہوا جو ان کو اس گھر میں پہنچانے کے موجب ہیں۔ فرمایا : (للذین احسنو الحسنی و زیادۃ) ” ان لوگوں کے واسطے جنہوں نے بھلائی کی ‘ بھلائی اور مزید ہے “ یعنی ان لوگون کے لئے جنہوں نے خالق کی عبادت میں احسان سے کام لیا یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں مراقبہ اور خیر خواہی کے ساتھ اسک کی عبادت کی اور مقدور بھر اس عبودیت کو قائم رکھا اور اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بندوں سے احسان قولی اور احسان فعلی کے ساتھ پیش آئے اور ان کے ساتھ مالی اور بدنی احسانات سے کام لیا ‘ نیکی کا حکم دیا ‘ برائی سے روکا ‘ جہلا کو تعلیم دی ‘ روگردانی کرنے والوں کی خیر خواہی کی ‘ نیکی اور احسان کے دیگر تمام پہلوؤں پر عمل کیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو احسان کے مرتبہ پر فائز ہوئے اور انہی کے لئے (الحسنی) ہے یعنی ایسی جنت جو اپنے حسن و جمال میں کامل ہے۔ مزید برآن ان کے لئے اور بھی انعام ہے۔ یہاں (زیادۃ) ” مزید “ سے مراد اللہ تعالیٰ کے چہرہ انور کا دیدار ‘ اس کلام مبارک کا سماع ‘ اس کی رضا کا فیضان اور اس کے قرب کا سرور ہے۔ اس ذریعے سے انہیں وہ بلند مقامات حاصل ہوں گے کہ تمنا کرنے والے ان کی تمنا کرتے ہیں اور سوال کرنے والے اللہ تعالیٰ سے انہیں مقامات کا سوال کرتے ہیں۔ اسے پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے محذورات کے دور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (ولا یرھق وجوھھم قتر ولا ذلۃ) ” اور نہ چڑھے گی ان کے چہروں پر سیاہی اور نہ رسوائی “ یعنی انہیں کسی لحاظ سے بھی کسی ناگوار صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ‘ کیونکہ جب کوئی نگوار امر واقع ہوتا ہے تو یہ ناگوار امر اس کے چہرے پر ظاہر ہوجاتا ہے اور چہرہ تغیر اور تکدر کا شکار ہوجاتا ہے۔ رہے یہ لوگ تو ان کی حالت ایسے ہوگی جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (تعرف فی وجوھھم نضرۃ النعیم) (المطففین : 24/83) ” تو ان کے چہروں میں نعمتوں کی تازی معلوم کرلے گا “۔ (اولئک اصحب الجنۃ) ” یہی ہیں جنت میں رہنے والے “ (ھم فیھا خالدون) ” وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ یعنی وہ جنت سے منتقل ہوں گے نہ اس سے دور ہوں گے اور نہ وہ تبدیل ہوں گے۔
Top