Tafseer-e-Saadi - Yunus : 99
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًا١ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَاٰمَنَ : البتہ ایمان لے آتے مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں كُلُّھُمْ جَمِيْعًا : وہ سب کے سب اَفَاَنْتَ : پس کیا تو تُكْرِهُ : مجبور کریگا النَّاسَ : لوگ حَتّٰى : یہانتک کہ يَكُوْنُوْا : وہ ہوجائیں مُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہوجائیں ؟
آیت : (99-100) اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ ﷺ سے فرماتا ہے : (ولو شاء ربک لا من من فی الارض کلھم جمیعا) ” اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین میں رہنے والے سب کے سب ایمان لے آتے “ یعنی ان کے دلوں میں ایمان الہام کردیتا اور ان کے دلوں کو تقویٰ کے لئے درست کردیتا۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان میں سے بعض لوگ ایمان لائیں اور بعض لوگ کافر رہیں۔ (افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین) ” کیا آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے ‘ یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں “ یعنی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں نہ آپ کے بس میں ہے اور نہ یہ چیز غیر اللہ کے اختیار اور قدرت میں ہے۔ (ومان کان لنفس ان تو من الا باذن اللہ) ” اور کسی سے نہیں ہوسکتا کہ وہ ایمان لائے مگر اللہ کے حکم سے “ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادہ و مشیت اور اس کے قدرتی و شرعی حکم سے۔ پس مخلوق میں سے جو اس کے قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے ‘ تو ایمان اس کے پاس پھلتا پھولتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو توفیق سے نوازتا اور اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ (ویجعل الرجس) ” اور ڈالتا ہے وہ گندگی “ یعنی شر و گمراہی (علی الذین لا یعقلون) ” ان لوگوں پر جو سوچتے نہیں “ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے او امر و نواہی اور اس کے نصائح و مواعظ پر کان نہیں دھرتے۔
Top