Tafseer-e-Saadi - Al-Hijr : 84
فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَؕ
فَمَآ اَغْنٰى : تو نہ کام آیا عَنْهُمْ : ان کے مَّا : جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کمایا کرتے تھے
اور جو کام وہ کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔
آیت 84 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل حجر یعنی صالح کی قوم کے بارے میں آگا فرماتا ہے جو حجاز کے علاقہ حجر میں آباد تھی انہوں نے اپنے رسولوں، یعنی صالح کو جھٹلایا، جس نے کسی ایک سرول کو جھٹلایا اس نے گویا تمام رسولوں کو جھٹلایا، کیونکہ ان سب کی دعوت ایک تھی۔ انہوں نے کسی رسول کی اس کی ذاتی شخصیت کی بنا پر تکذیب نہیں کی بلکہ انہوں نے حق کی تکذیب کی جس کے لانے میں تمام رسول مشترک تھے۔ (واتینھم ایتنا) اور ہم نے انہیں وہ نشانیاں عطا کیں جو اس حق کی صحت پر دلالت کرتی تھیں جنہیں صالح لے کر آئے تھے، ان نشانیوں میں سے وہ اونٹنی بھی تھی جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کی بہت بڑی نشانی تھی۔ (فکانوا عنھا معرضین) ” پس وہ ان سے منہ پھیرتے رہے “ وہ تکبر اور سرکشی کی بنا پر ان نشانیوں سے روگردانی کیا کرتے تھے۔ (وکانوا) ” اور تھے وہ “ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی کثرت کی بنا پر (ینحتون من الجبال بیوتاً امنین) ” تراشتے تھے پہاڑوں کے گھر اطمینان کے ساتھ “ یعنی اپنے گھروں میں ہر قسم کے خوف سے مطمئن ہو کر۔ پس اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کیا ہوتا اور اپنے نبی صالح کی تصدیق کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو بےپناہ رزق عطا کرتا اور مختلف انواع کے دنیاوی اور اخروی ثواب کے ذریعے سے ان کی عزت افزائی کرتا۔ مگر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے کہنے لگے : (آیت) ” اے صالح ! لے آؤ وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو، اگر تم واقعی رسول ہو۔ “ (فاخذتھم الصیحۃ مصبحین) ” سو پکڑ لیا ان کو چنگھاڑنے، صبح ہونے کے وقت “ پس ان کے سینوں میں ان کے دل پارہ پارہ ہو کر رہ گئے اور وہ اپنے گھر میں ہلاک ہو کر اوندھے منہ پڑے رہ گئے اور اس کے ساتھ ساتھ دائمی رسوائی اور لعنت نے ان کا پیچھا کیا۔ (فما اغنی عنھم ما کانوا یکسبون) ” پس کام نہ آیا ان کے جو کچھ وہ کماتے تھے۔ “ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم (عذاب) آجاتا ہے تو پھر اس کو لشکروں کی کثرت، انصار و اعونان کی قوت اور مال و دولت کی بہتات واپس نہیں لوٹا سکتی۔
Top