Tafseer-e-Saadi - Al-Hijr : 94
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ
فَاصْدَعْ : پس صاف صاف کہہ دیں آپ بِمَا : جس کا تُؤْمَرُ : تمہیں حکم دیا گیا وَاَعْرِضْ : اور اعراض کریں عَنِ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
پس جو حکم تم کو (خدا کی طرف سے) ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنا دو اور مشرکوں کا (ذرا) خیال نہ کرو۔
آیت 94 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ وہ کفار مکہ اور اور دیگر کفار کو ہرگز خاطر میں نہ لائیں اور اس چیز کو کھلا کھلا بیان کردیں جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور تمام لوگوں کے سامنے اس کا اعلان کردیں، کوئی رکاوٹ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل سے روک نہ دے اور ان مضطرب اذہان کے مالک لوگوں کی باتیں آپ کو اللہ کی راہ سے روک نہ دیں (واعرض عن المشرکین) ” اور مشرکین سے اعراض کریں۔ “ یعنی مشرکین کی پروا نہ کیجیے اور اپنا کام کرتے رہے۔ (انا کفینک المستھزء ین) ” ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہیں جو تم سے ساتہزا کرتے ہیں۔ “ یعنی جو لوگ آپ کا اور اس حق کا جسے لے کر آپ مبعوث ہوئے ہیں تمسخر اڑاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ٰ کا اپنے رسول سے یہ وعدہ ہے کہ تمسخر اڑانے والے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ان کے مقابلہ میں، اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کافی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ہلاک کیا اور اسے بدترین طریقے سیق تل کیا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کا وصف بیان کیا اور فرمایا کہ یہ لوگ جس طرح آپ کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کو بھی ایذا دیتے ہیں۔ (الذین یجعلون مع اللہ الصا اخر) ” جو کہ ٹھہراتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسرے معبود “ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کا رب اور ان کا خالق ہے اور ان پر تمام احسان اسی کی طرف سے ہیں۔ (فسوف یعلمون) ” عنقریب وہ جان لیں گے “ یعنی جب وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے تو انہیں اپنے کرتوتوں کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ (ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون) ” اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں “ وہ آپ کی تکذیب اور استہزاء کی بابت جو باتیں کہتے ہیں، وہ ہمیں معلوم ہیں اور ہم عذاب کے ذریعے سے ان کے استیصال پر پوری پوری قدرت رکھتے ہیں نیز ان کو فوری طور پر وہ سزا دے سکتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دے رہا ہے، تاہم ان کو مہمل نہیں چھوڑے گا۔ (فسبح بحمد ربک وکن من السجدین) ” پس (اے محمد ﷺ آپ اپنے رب کی خوبیاں بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوں۔ “ یعنی نہایت کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح وتحمید کیجیے اور نماز پڑھیے کیونکہ اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور یہ ذکر اور نماز آپ کے امور میں آپ کی مدد کریں گے۔ (واعبد ربک حتی یاتیک الیقین) ” اور اپنے رب کی عبادت کیجیے، یہاں تک کہ آپ کے پاس یقینی بات آجائے “ یعنی آپ کو موت آجائے۔ یعنی اپنے تمام اوقات میں، اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے دائمی طور پر مختلف عبادات میں مصروف رہے۔ پس نبی مصطفیٰ ﷺ نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی حتی کہ آپ کو آپ کے رب کی طرف سے واپسی کا حکم آپہنچا۔ ﷺ تسلیما کثیرا۔
Top