Tafseer-e-Saadi - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی تکلیف دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔
آیت : (126-128) اللہ تبارک و تعالیٰ عدل کو مباح کرتے ہوئے فضل اور احسان کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے : (وان عاقبتم) ” اور اگر تم بدلہ لو “ اگر تم اس شخص کا مواخذہ کرنا چاہو جس نے تمہیں قول و فعل کے ذریعے سے برے سلوک کا نشانہ بنایا ہے (فعاقبوابمثل ما عوقبتم بہ) ” تو بدلہ لو اسی قدر جس قدر کہ تم کو تکلیف پہنچائی گئی “ یعنی تمہارے ساتھ جو معاملہ کیا گیا ہے ‘ بدلہ لیتے وقت تمہاری طرف سے اس میں زیادتی نہ ہو۔ (ولئن صبرتم) ” اور اگر تم صبر کرلو “ یعنی دلہ نہ لو اور ان کا جرم معاف کردو تو (لھو خیر اللصبرین) ” وہ صبر کنے والوں کے لئے بہتر ہے۔ “ یعنی یہ بدلہ لینے سے بہتر ہے اور جو اجر وثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ) (الشوریٰ ::40/42) ” جو معاف کر کے معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ “ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ وہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت پر صبر کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور نفس پر بھروسہ نہ کریں چناچہ فرمایا : (واصبر وما صبرک الا باللہ) ” اور صبر کیجئے اور آپ کے لئے صبر ممکن نہیں ‘ مگر اللہ ہی کی مدد سے “ وہی صبر پر آپ کی مدد کرتا ہے اور آپ کو ثابت قدم رکھتا ہے (ولا تحزن علیھم) ” اور ان کے بارے میں غم نہ کرو۔ “ یعنی جب آپ ان کو دین کی دعوت دیں اور دیکھیں کہ وہ اس دعوت کو قبول نہیں کر رہے تو غمزدہ نہ ہوں کیونکہ حزن و غم آپ کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔ (ولا تک فی ضیق) ” اور تنگ دل نہ ہوں۔ “ یعنی آُ کسی سختی اور حرج میں نہ پڑیں۔ (مما یمکرون) ” ان کی چالوں سے “ کیونکہ ان کے مکر و فریب کا وبال انہی پر لوٹے گا اور آپ تو پرہیز گاروں اور نیکوکاروں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی معونت ‘ توفیق اور تسدید کے ذریعے سے پرہیز گاروں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کفر اور معاضی سے اجتناب کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں مقام احسان پر فائز ہیں یعنی وہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں گویا وہ اسے دیکھ رہے ہیں اگر ان پر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو انہیں یہ یقین حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ تو انہیں دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر احسان یہ ہے کہ اسے ہر لحاظ سے فائدہ پہنچایا جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں میں شامل کرے۔
Top