Tafseer-e-Saadi - An-Nahl : 17
اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس جو يَّخْلُقُ : پیدا کرے كَمَنْ : اس جیسا جو لَّا يَخْلُقُ : پیدا نہیں کرتا اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا۔ پس تم غور نہیں کرتے
تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے ؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے ؟
آیت 17 اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اس نے بڑی بڑی مخلوقات کو تخلیق کیا اور اس نے تمہیں لا محدود نعمتیں عطا کیں۔۔۔ فرمایا کہ کوئی ہستی اس کے مشابہ نہ اس کی برابری کرسکتی ہے اور نہ اس کی ہمسر ہے، چناچہ فرمایا (افمن یخلق) ” پس کیا وہ ہستی جو تمام مخلوقات کو پیدا کرتی ہے “ اور وہ جو ارادہ کرتی ہے اسے کر گزرتی ہے۔ (کمن لایخلق) ” اس ہستی کی مانند ہوسکتی ہے جو (کم یا زیادہ) کچھ بھی پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ “ (افلا تذکرون) ” کیا تم (اتنا) نہیں سمجھتے “ کہ تم پہچان سکو کہ وہ ہستی جو تخلیق میں یکتا ہے، وہی ہر قسم کی عبودیت کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی تخلق و تدبیر میں یکتا ہے اسی طرح وہ اپنی الوہیت، وحدانیت اور عبادت میں بھی یکتا ہے اور جس طرح اس وقت اس کا کوئی شریک نہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور دیگر چیزوں کو پیدا کیا۔ پس اس کی عبادت میں اس کے ہم سر نہ بناؤ بلکہ دین کو اس کے لئے خالص رکھو۔ وان تعدوا نعمۃ اللہ) ” اور اگر تم شمار کرو اللہ کی نعمتوں کو “ یعنی اللہ تعالیٰ کے شکر سے صرف نظر کرتے ہوئے، صرف تعداد کے اعتبار سے (لاتحصوھا) ” تو تم ان کو شمار نہیں کرسکو گے “ یعنی ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو کجا تم ان کو شمار بھی نہیں کرسکتے اس لئے کہ ہر قسم کی ظاہری و باطنی نعمتیں، جو اس نے سانسوں اور لحظوں کی تعداد میں بندوں پر کی ہیں، جن میں سے کچھ کو وہ جانتے ہیں اور کچھ کو نہیں جانتے، اسی طرح جو تکلیفیں وہ ان سے دور فرماتا رہتا ہے، یہ سب اتنی زیادہ ہیں کہ حیطہ شمار سے باہر ہیں۔ (ان اللہ لغفور رحیم) ” بیشک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے “ وہ معمولی سے شکر کو قبول کرلیتا ہے باوجود اس بات کے کہ اس کے انعامات بہت زیادہ ہیں اور جیسے اس کی رحمت بےپایاں، اس کا جود و کرم لا محدود اور اس کی مغفرت تمام بندوں کو شامل ہے، ایسے ہی اس کا علم ان سب کو محیط ہے۔ (یعلم ما تسرون وما تلعنون) ” وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ “ اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے، وہ اس کے برعکس ہیں یعنی وہ کچھ نہیں جانتے۔ کیونکہ (لایخلقون شیاءً ) ” وہ (کم یا زیادہ) کچھ بھی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہیں “ (وھم یخلقون) ” اور ان کو پیدا کیا گیا ہے۔ “ یعنی حالت یہ ہے کہ خود ان کو پیدا کیا گیا ہے وہ ہستیاں جو خود اپنے وجود کیلئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوں وہ کیسے کوئی چیز پیدا کرسکتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام اوصاف کمال اور علم وغیرہ سے محروم ہیں۔ (اموات غیر احیآء) ” وہ مردہ ہیں، زندہ نہیں “ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کچھ عقل رکھتے ہیں۔ کیا تم اللہ رب العالمین کو چھوڑ کر ان کو معبود بناتے ہو ؟ پس مشرکین کی مت ماری گئی ہے، ان کی عقل کتنی گمراہ اور کتنی فاسد ہے کہ وہ ان اشیاء میں بھی بہک گئی جن کا فساد بالکل واضح اور اظہر ہے۔ انہوں نے ان لوگوں کو جو ہر لحاظ سے نقاص، اوصاف کمال سے عاری اور افعال سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دے دیا ہے جو ہر لحاظ سے کامل ہے۔ وہ ہر صفت کمال کا مالک ہے اور یہ صفت اس میں سب سے کامل اور سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کا علم کامل تمام اشیاء پر محیط، اس کی قدرت سب کو شامل اور اس کی رحمت بےحدوحساب ہے جو تمام کائنتا پر سایہ کناں ہے۔ وہ حمد و ثنا، مجدو کبریاء اور عظمت کا مالک ہے، اس کی مخلوق میں کوئی بھ اس کی کسی صفت کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ بنا بریں فرمایا : (الھکم الہ واحد) ” تمہارا معبود، ایک معبود ہے “ اور وہ ہے اللہ جو ایک اور یکتا ہے اور وہ بےنیاز ہے اس نے کسی کو جنم دیا ہے نہ اس کو کسی نے جنم دیا ہے اور اس کا کوئی بھی ہمسر نہیں۔ پس عقل مند اور اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ اور اس کی عظمت کو اپنے دلوں میں بسا لیا ہے، ان کے دل اس سے بےپناہ محبت کرتے ہیں، بدنی اور مالی عبادات، اعمال قلوب اور اعمال جو ارح میں سے جو کچھ بھی ان کی استطاعت میں ہے اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کرتے ہیں اور اس کے اسمائے حسنیٰ ، صفات علیا اور افعال مقدسہ کے ذکر کے ذریعے سے اس کی حمد وثناء بیان کرتے ہیں۔ (فالذین لایومنون بالاخرۃ قلوبھم منکرۃ) ” پس وہ لوگ، جن کو آخرت کا یقین نہیں، ان کے دل نہیں مانتے “ یعنی ان کے دل اس امر عظیم کے منکر ہیں اور اس کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جن میں جہالت اور عناد بہت زیادہ ہو اور یہ امر عظیم اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ (وھم مستکبرون) ” اور وہ مغرور ہیں “ اور وہ تکبر ہی وجہ کی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انکار کرتے ہیں۔ (لاجرم) ” کوئی شک نہیں۔ “ یعنی یہ ایک اٹل حقیقت ہے (ان اللہ یعلم مایسرون وما یعلنون) ” جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں بیشک اللہ اس کو جانتا ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے کھلے چھپے قبیح اعمال کو جانتا ہے۔ (انہ لا یحب المستکبرین) ” بیشک وہ غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “ بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے سخت ناراض ہوتا ہے وہ ان کو ان کے عمل کی جنس کے مطابق جزا دے گا۔ (آیت) ” وہ لوگ جو تکبر کی بنا پر میری عبادت سے انکار کرتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “
Top