Tafseer-e-Saadi - An-Nahl : 42
الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَبَرُوْا : انہوں نے صبر کیا وَ : اور عَلٰي رَبِّهِمْ : اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : بھروسہ کرتے ہیں
یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں۔
آیت 42 اللہ تبارک و تعالیٰ ان اہل ایمان کی فضیلت سے آگاہ کرتا ہے جن کو امتحان میں ڈالا گیا تھا۔ چناچہ فرمایا (والذین ھاجروا فی اللہ) ” جنہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) ہجرت کی “ (من بعد ماظلموا) ” بع د اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا “ یعنی انکی قوم کی طرف سے اذیت اور تعذیب کے ذریعے سے ان پر ظلم کیا گیا، کفر اور شرک کی طرف واپس لانے کے لئے ان کو آزمائش اور ابتلاء میں ڈالا گیا۔ پس انہوں نے اپنے وطن اور دوست احباب کو اللہ رحمٰن کی اطاعت کی خاطر چھوڑ دیا۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ثواب کی دو اقسام بیان کی ہیں : (1) دنیاوی ثواب : یعنی کشادہ رزق اور خوشحال زندگی اس ثواب کا انہوں نے ہجرت کے بعد اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت حاصل کی، ان کے شہر فتح کئے، انہیں غنیمت میں بہت سامال ہاتھ آیا جس سے وہ مال دار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دنیا ہی میں بھلائی سے نواز دیا۔ (2) اخروی ثواب : (ولاجر الاخرۃ) ” اور آخرت کا اجر “ یعنی وہ ثواب جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر کیا ہے، (اکبر) ”(دنیا کے ثواب سے) بہت بڑا ہے۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کیا، ان کے لئے اللہ کے ہاں سب سے بڑا درجہ ہے اور یہی لوگ کامیاب ہیں ان کا رب انہیں اپنی رحمت، خوشنودی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔ “ (لوکانوا یعلمون) ” کاش وہ جانتے “ یعنی کاش انہیں اس اجر وثواب کا علم اور یقین ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے اور اس کی راہ میں ہجرت کی اور ہجرت کرنے سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : (الذین صبروا) ” وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں۔ “ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی، اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں اذیتوں پر صبر کرتے ہیں (عل یربھم یتوکلون) ” اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ “ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب امور کے نفاذ میں اپنے آپ پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کے تمام معاملات سر انجام پاتے ہیں اور ان کے احوال درست رہتے ہیں کیونکہ صبر اور تولک تمام امور کا سرمایہ ہے۔ جب بھی کوئی شخص کسی بھلائی سے محروم ہوتا ہے تو عدم صبر اور اپنے مقصد میں عدم جہدجہد کی وجہ سے ناکام ہوتا ہے یا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل نہیں کرتا۔
Top