Tafseer-e-Saadi - An-Nahl : 95
وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَ : اور لَا تَشْتَرُوْا : تم نہ لو بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کے عہد کے بدلے ثَمَنًا : مول قَلِيْلًا : تھوڑا اِنَّمَا : بیشک جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں هُوَ : وہی خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانو
اور خدا سے جو تم نے عہد کیا ہے (اس کو مت بیچو اور) اسکے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو (کیونکہ ایفائے عہد کا) جو (صلہ) خدا کے ہاں مقرر ہے وہ اگر سمجھو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔
آیت : (95-97) اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو متاع دنیا اور اس کے چند ٹکڑوں کی خاطر عہد اور قسم کو توڑتے ہیں۔ فرمایا : (ولاتشتروابعھد اللہ ثمنا قلیلا) ” اور نہ لو تم اللہ کے عہد پر تھوڑا سا مول “ یعنی وہ متاع دنیا جو تم بد عہدی کے ذریعے سے حاصل کرتے ہو۔ (انما عنداللہ) ” بیشک جو اللہ کے ہاں ہے “ دنیوی اور خروی ثواب ‘ اس شخص کے لئے جو اللہ کی رضا کو ترجیح دیتا اور اس عہد کو پورا کرتا ہے جو اللہ نے اس لئے لیا۔ (ھوخیر لکم) ” وہ تمہارے لئے بہتر ہے “ اور وہ زائل ہوجانے والی دنیا کی متاع سے کہیں بہتر ہے۔ پس انہوں نے باقی رہنے والی چیز کو ختم ہوجانے والی چیز پر ترجیح دی ہے۔ (ماعندکم) ” جو کچھ تمہارے پاس ہے “ خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو (ینفذ) ” وہ ختم (ہو کر فنا) ہوجائے گا “ (وما عنداللہ باق) ” اور جو اللہ کے پاس ہے ‘ وہ باقی رہے گا “ کیونکہ وہ خود باقی رہنے والا ہے ‘ اسے فنا اور زوال نہیں۔ پس وہ شخص عقل مند نہیں جو فانی اور خسیس چیز کو ہمیشہ رہنے والی نفیس چیز پر ترجیح دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ (بل تؤثرون الحیوۃ الدنیا والاخرۃ خیر وابقی) (الاعلی : 16-17/87) ” مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔ “ (وما عنداللہ خیر للابرار) (آل عمران : 198/3) ” اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لئے بہتر ہے۔ “ اس آیت کریمہ میں زہد اور دنیا سے بےرغبتی کی ترغیب دی گئی ہے ‘ خاص طور پر زہد متعین اور اس سے مراد ان چیزوں میں بےرغبتی اور ان سے پہلو بچانا ہے جو بندے کے لئے ضرر رساں ہیں اور اس بات کی موجب ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی واجب کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ کر ان دنیاوی چیزوں میں مشغول ہوجائے اور حقوق اللہ پر ان دنیاوی چیزوں کو ترجیح دینے لگے ‘ اس لئے کہ یہ زہد فرض ہے۔ زہد کے اسباب میں سے ایک داعیہ (سبب) یہ ہے کہ ابندہ دنیا کی ناپائیدار لذات اور شہوات کا آخرت کی بھلائیوں کے ساتھ تقابل کرے۔ وہ ان کے درمیان بہت بڑا فرق اور تفاوت ائے گا اور یہ تفاوت اسے بلند تر چیز کو ترجیح دینے پر آمادہ کرے گا۔ اور عبادات مثلاً نماز ‘ روزے اور ذکر اذکار وغیرہ پر توجہ مرکوز کرکے دنیا سے منقطع ہوجانا ‘ زہد ممدوح نہیں ہے بلکہ صحیح معنوں میں زاہد بننا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ بندہ مقدور بھر شریعت کے ظاہری اور باطنی احکام کی تعمیل نہ کرے اور قول و فعل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہ دے۔ پس حقیقی زہد یہ ہے کہ بندہ ہر چیز سے منہ موڑ لے جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں اور ہر اس چیز کے حصول کے لئے رغبت کے ساتھ کوشش کرے جو دین و دنیا میں فائدہ مند ہے۔ (ولنجزین الذین صبروا) ” اور ہم بدلے میں دیں گے صبر کرنے والوں کو “ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اور اس کی نافرمانی سے بازرہ کر صبر کرتے ہیں اور دنیاوی شہوات سے منہ موڑ لیتے ہیں جو ان کے دین کے لئے مضر ہیں۔ (اجرھم باحسن ماکونوا یعملون) ” ان کے اعمال کا نہایت اچھا بدلہ۔ “ یعنی نیک کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ تک۔ کیونکہ جو کوئی نیک کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے عمل کرنے والون کے لئے دنیاوی اور اخروی ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (من عمل صلحا من ذکراوانثی وھوا مومن) ” جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت وہ مومن ہو “ اس لئے کہ ایمان ‘ اعمال صالح کی صحت اور ان کی قبولیت کے لئے شرط ہے بلکہ اعمال صالحہ کو ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کہا ہی نہیں جاسکتا۔ ایمان ‘ ایمان صالحہ کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ایمان تصدیق جازم کا نام ہے۔ واجبات و مستحبات پر مشتمل اعمال جو ارح ایمان کا ثمرہ ہیں۔ پس جو کوئی ایمان اور عمل صالح کو جمع کرلیتا ہے (فلنحیینہ حیوۃ طیبۃ) ” تو ہم اس کو زندگی دیں گے اچھی زندگی “ یہ زندگی اطمینان قلب ‘ سکون نفس اور ان امور کی طرف عدم التفات پر مشتمل ہے جو قلب کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح رزق حلال سے نوازتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ (النجزینھم) ” اور ہم بدلے میں دیں گے ان کو “ یعنی آخرت میں (اجرھم باحسن ماکانوا یعملون) ” ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں مختلف قسم کی لذات سے نوازے گا جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال گزرا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی بھلائی سے نوازے گا اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرے گا۔
Top