Tafseer-e-Saadi - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بصورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا
آیت نمبر 13 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عدل کامل کے بارے میں خبر ہے، نیز یہ کہ ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے گلے میں لٹکا ہوا ہے، یعنی بندہ جو اچھایا برا کام سر انجام دیتا ہے وہ اسی کے ساتھ لازم ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کی طرف متعدی نہیں ہوتا اور کسی دوسرے کے عمل کا حساب اس سے لیا جائے گا نہ اس کا حساب کسی اور سے لیا جائے گا۔ (ونخرج لہ یوم القیمتہ کتباً یلقہ منشوراً ) ، ، اور نکال دکھائیں گے ہم اس کو قیامت کے دن ایک کتاب، وہ دیکھے گا اس کو کھلی ہوئی، ، اس کتاب میں اس کے تمام اچھے اور برے، چھوٹے اور بڑے تمام اعمال موجود ہوں گے اس سے کہا جائے گا : (اقراء کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیباً ) ، ، پڑھ لے اپنی کتاب، تو ہی کفی ہے آج کے دن اپنا حساب لینے والا، ، یہ سب سے بڑا عدل و انصاف ہے کہ بندے سے کہا جائے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس کے ذمہ کون کون سے حقوق ہیں جو سزا کے موجب ہیں۔
Top