Tafseer-e-Saadi - Maryam : 59
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ
فَخَلَفَ : پھر جانشین ہوئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : چند جانشین (ناخلف) اَضَاعُوا : انہوں نے گنوادی الصَّلٰوةَ : نماز وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی الشَّهَوٰتِ : خواہشات فَسَوْفَ : پس عنقریب يَلْقَوْنَ : انہیں ملے گی غَيًّا : گمراہی
پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشنیں ہوئے جنہوں نے نماز کو (چھوڑ دیا گو یا اسے) کھو دیا اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی
آیت 59 جب اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے کرام کا ذکر فرمایا جو مخلص، اپنے رب کی رضا کی پیروی کرنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو ان کے بعد آئے اور انہوں نے امور کو بدل دیا جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا، ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین بنے جو پیچھے لوٹ گئے۔ انہوں نے نماز کو ضائع کیا جس کی حفاظت اور اس کو قائم کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا، انہوں نے نماز کو حقیر سمجھا اور اسے ضائع کردیا۔ جب انہوں نے نماز کو ضائع کردیا جو دین کا ستون، ایمان کی میزان اور رب العالمین کے لئے اخلاص ہے، جو سب سے زیادہ مؤکد عمل اور سب سے افضل خصلت ہے، تو نماز کے علاوہ باقی دین کو ضائع کرنے اور اس کو چھوڑ دینے کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ شہوات نفس اور اس کے ارادوں کے پیچھے لگ گئے، اس لئے ان کی ہمتوں کا رخ ان شہوات کی طرف پھر گیا اور انہوں نے ان شہوات کو حقوق اللہ پر ترجیح دی۔ یہیں سے حقوق اللہ کو ضائع کرنے اور شہوات نفس پر توجہ دینے نے جنم لیا۔ یہ شہوات نفس جہاں کہیں بھی نظر آئیں اور جس طریقے سے بھی بن پڑا، انہوں نے ان کو حاصل کیا۔ (فسوف یلقون غیاً ) ” پس عنقریب ملیں گے وہ ہلاکت کو۔ “ یعنی کئی گنا سخت عذاب۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے استثناء فرمایا (الا من تاب) یعنی جس نے شرک، بد عات اور معاصی سے توبہ کرلی، ان کو ترک کر کے ان پر نادم ہوا اور دوبارہ ان کا ارتکاب نہ کرنے کا پکا عزم کرلیا (وامن) اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان لایا) (وعمل صالحاً ) ” اور نیک عمل کئے۔ “ اور عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر مشروع فرمایا ہے جبکہ عمل کرنے والے کی نیت رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ (فاؤلئک) یعنی جس نے توبہ، ایمان اور عمل صالح کو یکجا کرلیا (یدخلون الجنۃ) ” وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ “ جو ہمیشہ رہنے والی نعمتوں، ہرق سم کے تکدر سے سلامت زندگی اور رب کریم کے قریب پر مشتمل ہوگی۔ (ولا یظلمون شیاً ) یعنی انکے اعمال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی بلکہ ان کو ان کے اعمال کا کئی گنا زیادہ اجر ملے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جنت جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے عام باغات کی مانند نہیں، بلکہ وہ تو (جنت عدن) ” ہمیشہ قیام والی جنتیں ہیں “ جہاں نازل ہونے والے کبھی کوچ کریں گے نہ کہیں اور منتقل ہوں گے اور نہ ان کی نعمتیں زائل ہوں گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ جنتیں بہت وسیع ہوں گی اور ان میں بیشمار نعمتیں، مسرتیں، رونقیں اور خوش کن چیزیں ہوں گی۔ (التی وعد الرحمٰن عبادہ بالغیب) یعنی جس کا رحمان نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنے اسم مبارک (الرحمان) کی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ ان میں ایسی رحمتیں اور ایسا حسن سلوک ہوگا کہ ان کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنی رحمت سے موسوم فرمایا ہے، چناچہ فرمایا : (وما الذین ابیضت وجوھھم فقی رحمۃ اللہ ھم فیھا خلدون) (ال عمران : 108/3) د ’ اور جن کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ “ نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف ان کی اضافت، ان کی مسرتوں کے دوام پر دلالت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بقاء کے ساتھ یہ بھی باقی رہیں گی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار اور اس کی موجبات میں شمار ہوتی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں (عباد) سے مراد اس کی الوہیت کے معتقد وہ بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی شریعت کا التزام کرتے ہیں۔ پس عبودیت ان کا وصف بن جاتی ہے، مثلاً (عباد الرحمٰن) وغیرہ بخلاف ان بندوں کے جو ملک کے اعتبار سے تو اس کے بندے ہیں مگر اس کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ بندے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بندے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا، وہ ان کو رزق عطا کرتا ہے اور انکی تدبیر کرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے بندے نہیں اور اس کی عبودیت اختیاری کے تحت نہیں آتے جس کو اختیار کرنے والا قابل مدح ہے۔ ان کی عبودیت تو عبودیت اضطراری ہے جو قابل مدح نہیں۔ ارشاد مقدس (بالغیب) میں یہ احتمال ہے کہ (وعد الرحمٰن) سے متعلق ہو تب اس احتمال کی صورت میں یہ معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ان جنتوں کا غائبانہ وعدہ کیا ہے جن کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے نہ ان کو دیکھا ہے، وہ ان پر ایمان لائے، غائبانہ ان کی تصدیق کی اور ان کے حصول کے لئے کوشاں رہے، حالانکہ انہوں نے ان کو دیکھا ہی نہیں اور اگر وہ ان و دیکھ لیتے تب ان کا کیا حال ہوتا، اس صورت میں ان کی شدید طلب رکھتے ہیں، ان میں بہت زیادہ رغبت رکھتے اور ان کے حصول کے لئے سخت کوشش کرتے۔ اس میں ان کے ایمان بالغیب کی بنا پر ان کی مدح ہے، یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ دیتا ہے، نیز اس امر کا احتمال بھی ہے کہ (بالغیب) (عبادہ) سے متعلق ہو یعنی وہ لوگ جنہوں نے حالت غیب میں اور اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس کی عبادت کی۔ ان کی عبادت کا یہ حال ہے حالانکہ انہوں نے اس کو دیکھا نہیں اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو وہ اس کی بہت زیادہ عبادت کرتے اور اس کی طرف بہت زیادہ رجوع کرتے اور اللہ تعالیٰ کے لئے ان کے اندر بہت زیادہ محبت اور اشتیاق ہوتا۔ اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جنتیں، جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے، ان کا تعلق ایسے امور کے ساتھ ہے جو اوصاف کے دائرہ اور اک سے باہر ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پس اس آیت کریمہ میں جنت کے لئے شوق ابھارا گیا ہے، نیز آیت کریمہ میں بیان کردہ مجمل وصف نفوس کو اس کے حصول اور اسکن کو اس کی طلب میں متحرک کرتا ہے اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ (آیت) ” کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے اعمالت کے صلے میں ان کے لئے آنکھوں کی کون سی ٹھنڈ چھپا رکھی گئی ہے۔ “ مذکورہ تمام معانی صحیح اور ثابت ہیں۔ البتہ پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (انہ کان وعدہ ماتیاً ) ” بیشک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔ “ یعنی یہ ضرور ہو کر رہے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ وہ سب سے زیادہ سچی ہستی ہے۔ (لایسمعون فیھا لغواً ) یعنی وہ جنت میں کوئی ایسی لغو بات نہیں سنیں گے جس کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسی بات سنیں گے جس کا سننا گناہ ہو، لہٰذا وہ جنت میں کوئی سب وشتم، کوئی عیب جوئی اور نہ کوئی ایسی بات سنیں گے جس کے سننے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب ہوتا ہو اور نہ ہی تکدر پر مبنی کوئی بات (الا سلما) یعنی وہ صرف ایسی باتیں سنیں گے جو ہر عیب سے پاک ہوں گی۔ یعنی ذکر الٰہی، سلام، پر سرور باتیں، بشارت، دوستوں کے درمیان خوبصورت اور اچھی اچھی باتیں، رحمٰن کا خطاب، حوروں، فرشتوں اور غلمان کی دل ربا آوازیں، طرب انگیز نغمات اور نرم الفاظ سننے کو ملیں گے کیونکہ یہ سلامتی کا گھر ہے جہاں ہر لحاظ سے کامل سلامتی کے سوا کچھ نہیں۔ (ولھم رزقھم فیھا) ” اور ان کے لئے ان کا رزق ہوگا اس میں “ یعنی ماکولات و مشروبات اور مختلف انواع کی لذات جب بھی وہ طلب کریں گے اور جب بھی رغبت کریں گے ہمیشہ موجود پائیں گے۔ ان کی تکمیل، ان کی لذت اور ان کا حسن یہ ہے کہ یہ معلوم اوقات میں ہوں گی (بکرۃ وعشیاً ) ” صبح اور شام “ تاکہ ان چیزوں کا وقوع با عظمت اور ان کا فائدہ کامل ہو۔ وہ جنت جس کا ہم نے وصف بیان کیا ہے۔ (التی نورث من عبادنا من کان تقیاً ) ہم اہل تقویٰ کو اس جنت کا وارث بنائیں گے، اس جنت کو ہم ان کا دائمی گھر بنئایں گے جہاں سے وہ کبھی کوچ کریں گے نہ یہاں سے کہیں اور منتقل ہونا چاہیں گے، جی اس کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” دوڑ کر بڑھو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے جو اہل تقویٰ کیلئے تیار کی گئی ہے۔ “
Top