Tafseer-e-Saadi - Maryam : 76
وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى١ؕ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ مَّرَدًّا
وَيَزِيْدُ : اور زیادہ دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا : جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی هُدًى : ہدایت وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے نزدیک ثَوَابًا : باعتبار ثواب وَّخَيْرٌ : اور بہتر مَّرَدًّا : باعتبار انجام
اور جو لوگ ہدایت یاب ہیں خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ تمہارے پروردگار کے صلے کے لحاظ سے خوب اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں
آیت 76 اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد، کہ وہ ظالموں کی گمراہی کو اور زیادہ کردیتا ہے یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں، اپنے فضل و کرم اور رحمت سے مزید اضافہ کردیتا ہے۔۔۔ اور ہدایت، علم نافع اور عمل صالح دونوں کو شامل ہے۔ پس ہر وہ شخص جو علم و ایمان اور عمل صالح کے راستے پر گامزن ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور زیادہ علم و ایمان عطا کرتا ہے اور اس راستے میں اس کے لئے آسانی کردیتا ہے اور اسے بعض ایسے امور عطا کرتا ہے جو اس کے اپنے کسب کے تحت نہیں آتے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جی اس کہ سلف صالح کا قول ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے۔ (ویزداد الذین امنوا ایماناً ) (المدثر :31/38) ” تاکہ جو لوگ ایمان لائے ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ “ نیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (واذا تلیت علیھم ایتہ زادتھم ایماناً ) (الانفال :2/8) ” جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ “ نیز واقعات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں، کیونکہ ایمان دل اور زبان کے قول اور دل، زبان اور اعضاء کے عمل کا نام ہے، اور ان امور میں تمام اہل ایمان ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں۔ پھر فرمایا : (والبقیت الصلحت) یعنی باقی رہنے والے وہ اعمال جو کبھی منقطع نہیں ہوتے جبکہ دیگر اعمال منقطع ہوجاتے ہیں اور جو مضمحل نہیں ہوتے، یہ نیک اعمال ہیں مثلاً نماز، زکوۃ روزہ، حج، عمرہ، قرأ قرآن، تسبیح و تکبیر، تحمید و تہلیل مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور دیگر تمام اعمال قلب اور اعمال بدن وغیرہ۔ پس یہ تمام اعمال (خیر عند ربک ثواباً و خیر مرداً ) یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بہتر اجر وثواب ہے، اہل اعمال کے لئے ان اعمال کا فائدہ اور اجر بہت زیادہ ہے۔ یہ اسم تفصیل کو کسی اور جگہ استعمال کرنے کے باب میں ہے کیونکہ وہاں باقیات صالحات کے سوا کوئی عمل صاحب عمل کو کوئی فائدہ دے گا نہ اس کا ثواب صاحب عمل کے لئے باقی رہے گا۔ یہاں باقیات صالحات کو ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے (والللہ اعلم) چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ ظالم کفار اپنے مال و اولاد اور حسن مقام رغیرہ کے دنیاوی احوال کو اپنے حسن حال کی علامت قرار دیتے ہیں، اس لئے یہاں آگاہ فرمایا کہ معاملہ اس طرح نہیں جس طرح وہ سمجھتے ہیں بلکہ عمل، جو سعادت کا عنوان اور فلاح کا منشور ہے، ان امور کی تعمیل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور ان پر راضی ہے۔
Top