Tafseer-e-Saadi - Maryam : 85
یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ
يَوْمَ : جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کرلیں گے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع) اِلَى الرَّحْمٰنِ : رحمن کی طرف وَفْدًا : مہمان بنا کر
جس روز ہم پرہیزگاروں کو خدا کے سامنے (بطور) مہمان جمع کریں گے
آیت 85 اللہ تبارک و تعالیٰ دونوں گروہوں، یعنی متقین و مجرمین کے درمیان تفاوت بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ متقین کو، ان کے شرک و بدعات اور دیگر گناہوں سے بچنے کے سبب سے، قیامت کے ورز، اکرام و تعظیم کے ساتھ اکٹھا کرے گا اور وہ وفود کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ ان کی منزل اور ان کا مطلوب و مقصود رحمٰن و منان ہوگا اور یہ ضرو ری ہے کہ آنے والے کا دل امید سے لبریز ہو اور جس کے پاس آیا ہے اس پر حسن ظن ہو۔ پس اہل تقویٰ ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باپایاں احاسن کی امید کھتے ہوئے اور اس کی رضا کے گھر میں اس کی نوازشوں سے فوزیاب ہوتے ہوئے، اس کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اس کا سبب ان کے وہ نیک اعمال ہوں گے جو انہوں نے آگے بھیجے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کی اور بیشک اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے انبیاء و رسل کی زبان پر انکے لئے اس ثواب کا عہد کر رکھا ہے۔ پس وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی طرف رواں دواں ہوں گے۔ رہے مجرم، تو ان کو پیاسا ہی جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور یہ ان کی بدترین حالت ہوگی کہ ان کو انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ سب سے بڑے قید خانے اور بدترین عذاب میں، یعنی جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ وہ تھکے ماندے سخت پیاسے ہوں گے، وہ مدد کے لئے پکاریں گے مگر ان کی مدد نہ کی جائے گی، وہ دعائیں کریں گے مگر ان کی دعائیں قبول نہ ہوں گی اور وہ سفارش تلاش کریں گے مگر ان کی سفارش نہ کی جائے گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لایملکون الشفاعۃ) یعنی وہ سفارش کے مالک ہوں گے نہ انہیں سفارش کا کوئی اختیار ہوگا۔ تمام تر سفارش کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہوگا۔ (قل للہ الشفاعۃ جمیعاً ) الزمر :33/39) ” کہہ دیجیے سفارش سب اللہ کے لئے ہے “ اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا ہے کہ سفاشر کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لا کر اس سے کوئی عہد نہیں لیا۔۔۔ ورنہ وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے عہد لیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تو وہ ان لوگوں میں شامل ہے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے اور اس کو سفارش حاصل ہوگی، جی اس کہ فرمایا : (ولا یشفعون الا لمن ارتضی) (الانبیاء :28/21) ” وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے وہ (اللہ تعالیٰ ) راضی ہو۔ “ اللہ تعالیٰ نے ایمان باللہ اور اپنے رسولوں کی اتباع کو عہد قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں اور اپنے انبیاء و رسل کی زبان پر عہد کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جزائے جمیل عطا کرے گا جو ابناء و رسل کی اتباع ریں گے۔
Top