Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
آیت 11 تا 12 جب ان منافقوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے اور فساد سے مراد اعمال کفر اور معاصی ہیں۔ نیز دشمن کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا اور کفار کے ساتھ دوستی رکھنا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں۔ پس انہوں نے دو باتوں کو اکٹھا کردیا۔ (1) فساد فی الارض کا ارتکاب (2) اس بات کا اظہار کہ یہ فساد پھیلانا نہیں، بلکہ اصلاح ہے۔ یوں گویا ایک تو انہوں نے حقائق کو بدل دیا (فساد کا نام اصلاح رکھا) دوسرے، فعل باطل اور اس کے حق ہونے کے اعتقاد کو جمع کردیا۔ یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں جو گناہ کو حرام سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ سلامتی کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی بابت ارتکاب گناہ سے باز آجانے کی زیادہ امید ہے۔ چونکہ ان کے قول (انما نحن مصلحون) ” بیشک ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں “ میں اصلاح ان کی جانب محدود و محصور ہے جس سے ضمناً یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان اصلاح والے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا دعویٰ انہی پر پلٹ دیا۔ فرمایا : (الا انھم ھم المفسدون) ” خبردار ! بیشک یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں۔ “ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے ساتھ دوستی رکھنے سے بڑا کوئی فساد نہیں۔ اس کے باوجود وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اصلاح کر رہے ہیں۔ کیا اس فساد کے بعد بھی کوئی اور فساد رہ جاتا ہے ؟ لیکن وہ اپنے فساد کے بارے میں ایسا علم نہیں رکھتے جو انہیں فائدہ پہنچا سکے اگرچہ وہ اس کے بارے میں ایسا علم ضرور رکھتے ہیں جو ان کے خلاف حجت قائم کرے گا اور صرف ان کے اعمال ہی زمین کے اندر فساد کا باعث ہیں کیونکہ برے اعمال اور گناہوں کے سبب سے روئے زمین پر آفتیں اور مصائب نازل ہوتے ہیں جو غلے، پھلوں، درختوں اور نباتات کو بھی خراب کردیتے ہیں۔ زمین کے اندر اصلاح یہ ہے کہ اسے ایمان اور اطاعت الٰہی سے معمور رکھا جائے۔ اسی اطاعت و ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے اس کو زمین پر آباد کیا اور ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے تاکہ وہ اس رزق کی مدد سے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کرے، لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے خلاف عمل کیا جائے گا تو یہ عمل گویا زمین میں فساد برپا کرنا اور اس کو اجاڑنا ہوگا۔
Top