Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے، اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
آیت 30 تا 34 (آیت) ” اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا، میں زمین میں ایک خلیفہ بناؤں گا “ یہ ابوالبشر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کی ابتدا اور ان کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق کا ارادہ کیا تو اس نے فرشتوں کو آگاہ کیا اور فرمایا کہ وہ آدم کو زمین کے اندر خلیفہ بنائے گا۔ اس پر تمام فرشتوں نے کہا (اتجعل فیگھا من یفسد فیھا) ” کیا تو زمین میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا “ یعنی گناہوں کا ارتکاب کرکے زمین پر فساد برپا کرے گا (ویسفک الدماء) ” اور خون بہائے گا “ یہ عموم کے بعد تخصیص ہے اور اس کا مقصد قتل کے مفاسد کی شدت کو بیان کرنا ہے اور یہ فرشتوں کے گمان کے مطابق تھا کہ وہ ہستی جسے زمین میں خلیفہ بنایا جارہا ہے اس کی تخلیق سے زمین کے اندر فساد ظاہر ہوگا، چناچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں جو تمام مفاسد سے پاک ہے۔ چناچہ انہوں نے کہا (ونحن نسبح بحمدک) ” اور اہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیری خوبیوں کے ساتھ “ یعنی ہم ایسی تنزیہ کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں جو تیری حمد و جلال کے لائق ہے۔ (ونقدس لک) اس میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں یعنی (نقدسک) اس صورت میں لام تخصیص اور اخلاص کا فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کے معنی ہوں۔ (نقدس لک انفسنا) ” ہم اپنے آپ کو تیرے لئے پاک کرتے ہیں “ یعنی ہم اپنے نفوس کو اخلاق جمیلہ جیسے محبت الہٰی، خثیت الہٰی اور تعظیم الہٰی کے ذریعے سے پاک کرتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کو اخلاق رزیلہ سے بھی پاک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا (انی اعلم) یعنی میں جانتا ہوں کہ یہ خلیفہ کون ہے۔ (مالا تعلمون) جو تم نہیں جانتے کیونکہ تمہارا کلام تو ظن اور گمان پر مبنی ہے جب کہ میں ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اس خلیفہ کی تخلیق سے جو خیر اور بھلائی حاصل ہوگی وہ اس شر سے کئی گنا زیادہ ہے جو اس کی تخلیق میں مضمر ہے اور اس میں یہ بات بھی نہ ہوتی، تب بھی اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ کہ وہ انسانوں میں سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو چنے، اس کی نشانیاں مخلوق پر واضح ہوں اور اس سے عبودیات کی وہ کیفیتیں حاصل ہوں جو اس خلیفہ کی تخلیق کے بغیر حاصل نہ ہوسکتی تھیں، جیسے جہاد وغیرہ ہیں اور امتحان اور آزمائش کے ذریعے سے خیر و شر کی وہ قوتیں ظاہر ہوں جو مکلفین کی فطرت میں پوشیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں، دوستوں، اس کے خلاف جنگ لڑنے والوں اور حزب اللہ کے مابین امتیاز ہو اور ابلیس کا وہ شر ظاہر ہو جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہے اور جس سے وہ متصف ہے۔ تو آدم (علیہ السلام) کی تخلیق میں یہ حکمتیں ہی اتنی عظیم ہیں کہ ان میں سے چند ایک بھی اس کی تخلیق کے لئے کافی ہیں۔ پھر چونکہ فرشتوں کے قول میں ان کے اس خیال کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں اس خلیفہ پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ فرشتوں پر آدم کی فضیلت کو واضح کردے، تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آدم کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت اور اس کے علم کو جان لیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وعلم ادم الاسماء کلھا) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے اسماء اور ان کے مسمی کا علم عطا کردیا۔ پس اس نے اسے اس اور مسمی دونوں کی تعلیم دی۔ یعنی الفاظ اور معانی دونوں سکھا دئیے۔ یہاں تک کہ اسماء میں سے مکبر اور مصغر کے مابین امتیاز کو بھی واضح کردیا، مثلاً ” قصعۃ “ (پیالہ) اور ” قصبعۃ “ (چھوٹا سا پیالہ) (ثم عرضہھم) یعنی پھر ان مسمیات کو پیش کیا۔ (علی الملکۃ) ” فرشتوں پر “ یعنی فرشتوں کو آزمانے کے لئے کہ آیا یہ ان مسمیات کو پہچانتے ہیں یا نہیں اور فرمایا (آیت) اگر تم اپنے اس دعوے اور گمان میں سچے ہو کہ تم اس خلیفہ سے افضل ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ (قالوا سبحنک) فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم نے تجھ پر جو اعتراض کیا تھا اور تیرے حکم کی مخالفت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اس سے تجھے منزہ اور پاک تسلیم کرتے ہیں۔ (لاعلم لنا) یعنی ہمیں کسی بھی پہلو سے کوئی علم نہیں (الا ماعلمتنا) سوائے اس علم کے جو تو نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا کیا ہے۔ (انک انت العلیم الحکیم) (العلیم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے، جس نے اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہو۔ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہ ہو آسمانوں اور زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہ ہو، اس ذرے سے بڑی یا اس سے چھوٹٰ کوئی چیز بھی اس سے چھپی ہوئی نہ ہو۔ (الحکیم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو کامل حکمت کی مالک ہو۔ کوئی مخلوق اس کی حکمت سے باہر نہ ہو اور کوئی مامور اس حکمت سے علیحدہ نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جس میں کوئی حکمت نہ ہو اور نہ کوئی ایسا حکم دیا ہے جو حکمت سے خالی ہو۔ حکمت سے مراد ہے کسی چیز کو اس کے اس مقام پر رکھنا جو اس کے لائق ہے۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی حکومت اور علم کا اقرار اور اعتراف کیا اور اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ وہ ایک ادنیٰ سی چیز کی معرفت سے بھی قاصر تھے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور انہیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتے تھے۔ پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یادم انبءھم باسماءھم) ” اے آدم ! ان کو ان کے نامون کی خبر دو “ یعنی ان تمام مسمیات کے امساء کے بارے میں آگاہ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے پیش کیا تھا اور فرشتے ان کے نام بتانے سے قاصر رہے۔ (فلما انباھم) ” جب آدم (علیہ السلام) نے فرشتوں کو ان ناموں سے آگاہ کیا “ تو ان پر آدم کی فضیلت ظاہر اور اس کو خلیفہ بنانے میں باری تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ثابت ہوگیا۔ (آیت) ” اللہ نے فرمایا، کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہوں۔ “ غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ہم سے اوجھل ہوا اور ہم اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں۔ جب وہ غائب چیزوں کا علم رکھتا ہے تو مشہودات کو وہ بدرجہ اولیٰ جانتا ہے۔ (واعلم ماتبدون) یعنی میں جانتا ہوں اس چیز کو جسے تم ظاہر کرتے ہو (ماکنتم تکتمون) ” اور جو کچھ تم چھپاتے ہو “۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم (علیہ السلام) کے اکرام و تعظیم اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے اظہار کے لئے آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور تمام فرشتے اسی وقت سجدے میں گرگئے (الا ابلیس ابی) سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ ٰ کے حکم کے سامنے تکبر کا اظہار کیا اور آدم ( علیہ السلام) سے اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اس نے تکبر سے کہا : (آیت) ” کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔ “ یہ انکار اور استکبار اس کے اس کفر کا نتیجہ تھا جو اس کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اور آدم ( علیہ السلام) سے اس کی عداوت ظاہر ہوگئی اور اس کا کفر و استکبار عیاں ہوگیا۔ ان آیات کریمہ سے کچھ نصیحتیں اور کچھ نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کا اثبات، وہ ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے، وہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ (2) بندے پر جب بعض مخلوقات اور مامورات میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی رہ جائے تو اس پر سر تسلیم خم کرنا، اپنی عقل کو ناقص ٹھہرانا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا اقرار کرنا واجب ہے۔ (3) ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے معاملے کو اہمیت دی، ان پر احسان عظیم فرمایا، جس چیز کے بارے میں وہ جاہل تھے اس کی انہیں تعلیم دی اور جس کا انہیں علم نہ تھا اس پر انہیں متنبہ فرمایا۔ ان آیات میں مندرجہ ذیل وجوہ سے علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ (الف) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو اپنے علم و حکمت کی معرفت عطا کی۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حقیقت سے واقف کرایا کہ آدم ( علیہ السلام) کو بربنائے علم فضیلت حاصل ہے اور علم بندے کی افضل ترین صفت ہے۔ (ج) جب آدم ( علیہ السلام) کے علم کی فضیلت واضح اور عیاں ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم ( علیہ السلام) کے اکرام و تکریم کے لئے اسے سجدہ کریں۔ (د) کسی اور کو کسی امتحان کے ذریعے سے آزمانا جبکہ اس امتحان میں کچھ لوگ پورے نہ اترے ہوں، پھر امتحان میں پورا اترنے والے صاحب فضیلت سے یہ امتحان لے تو یہ اس شخص سے زیادہ کامل ہے جس سے ابتدا میں امتحان لیا گیا تھا۔ (ھ) جن و انس کے والدین کے احوال سے عبرت پذیری، آدم ( علیہ السلام) کی فضیلت، اس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور آدم کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا اظہار اور اس جیسی دیگر عبرتیں۔
Top