Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
آیت 38، 39 (آیت) قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا ” ہم نے کہا اتر و اس سے اکٹھے “۔ زمین پر اتارے جانے کا مکرر ذکر کیا، تاکہ اس پر وہ حکم مرتب کیا جائے جس کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ (آیت) فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى یعنی اے جن وانس ! اگر تمہارے پاس میری طرف سے کسی وقت اور کسی بھی زمانے میں ہدایت پہنچے، یعنی کوئی رسول اور کوئی کتاب آئے جو اس راستے کی طرف تمہاری راہنمائی کرے جو تمہیں میرا تقرب عطا کرے، میرے اور میری رضا کے قریب کرے۔ پس جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے میرے رسولوں اور میری کتابوں پر ایمان لائے اور ان رسولوں کو راہنما بنائے۔۔۔ اور اس سے مراد ہے کہ وہ تمام انبیاء ومرسلین اور کتب وحی کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرے، اللہ کے اوامر پر عمل کرے اور اس کی منہیات سے اجتناب کرے۔ تب اس صورت میں (آیت) فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ” ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے۔ (آیت) ’ فمن اتبع ھدای فلا یضل ولا یشقی۔ (طہ 123) ’ جو کوئی میری ہدایت کی پیری کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہوگا نہ بدبختی میں پڑے گا۔ “ پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی پر چار چیزیں مرتب ہوتی ہیں۔ بندے سے حزن و خوف کی نفی حزن اور خوف میں فرق یہ ہے کہ اگر غیر پسندیدہ امر گزر چکا ہو تو وہ دل میں حزن کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ اس غیر پسندیدہ امر کا منتظر ہو تو یہ خوف پیدا کرتا ہے۔ پس جس کسی نے ہدایت الٰہی کی پیروی کی اس سے حزن و خوف دور ہوگئے اور جب اس سے حزن و خوف کی نفی ہوگئی تو ان کی ضد ثابت ہوگئی اور وہ ہے ہدایت اور سعادت، لہٰذا جو کوئی بھی اس کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے اسے امن، دنیاوی اور آخروی سعادت اور ہدایت حاصل ہوتی ہے اور ہر تکلیف دہ چیز یعنی حزن و خوف اور ضلالت و شقاوت اس سے دور کردی جاتی ہے۔ ہر مرغوب چیز اسے عطا کردی جاتی ہے اور خوف زدہ کرنے والی چیز اس سے دور ہٹا دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اس شخص کا معاملہ ہوگا جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی نہ کی، پس اس کا انکار کیا اور اس کی آیات کو جھٹلایا۔ (آیت) اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ” یہی لوگ جہنمی ہیں “ یعنی جہنم ان کے لئے لازم ہے۔ جیسے ساتھی دوسرے ساتھی سے اور قرض خواہ مقروض سے چمٹا رہتا ہے۔ (آیت) ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ” وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ کبھی اس سے باہر نہیں نکلیں گے جہنم کا عذاب کبھی ان سے کم نہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔ ان آیات کریمہ اور ان جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخلوق میں سے تمام جن و انس، اہل سعادت اور اہل شقاوت کی اقسام میں منقسم ہیں۔ ان آیات میں دونوں فریقوں کی صفات اور ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو سعادت یا شقاوت کے موجب ہیں۔ ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ” جن “ ثواب و عقاب کے معاملے میں انسانوں کی طرح ہیں جس طرح وہ ان کی مانند امرو نہی کے مکلف ہیں۔
Top