Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں
آیت 45-48 (آیت) 44؀ وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ” اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام امور میں صبر کی تمام اقسام سے مدد لیں۔ صبر کی اقسام یہ ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اپنے نفس کو پابند کرنا۔ (2) اس کی نافرمانی سے اپنے آپ کو روکنا یہاں تک کہ اسے ترک کر دے۔ (3) اس کی تقدیر پر صبر کرنا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔ ہر معاملے میں صبر کے ذریعے سے بڑی مدد ملتی ہے۔ جو کوئی صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر کرن کی تفویق سے نواز دیتا ہے۔ اسی طرح نماز ہے جو کہ ایمان کی میزان ہے اور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ ہر معاملہ میں نماز سے مدد لی جاتی ہے۔ (وانھا) یعنی نماز (لکبیرۃ) بہت شاق گزرتی ہے (الاعلی الخشعین) سوائے ڈرنے والوں کے اس لئے کہ یہ نماز ان پر بہت آسان اور ہلکی ہے کیونکہ خشوع، خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی امیدان کے لئے شرح صدر کے ساتھ نماز کے قیام کی موجب ہوتی ہے کیونکہ وہ ثواب کی امید کرتے اور عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو ثواب کی امید نہیں رکھتا اور عذاب سے نہیں ڈرتا اس کے اندر کوئی ایسا داعیہ موجود نہیں ہوتا جو اسے نماز کی طرف بلائے۔ جب ایسا شخص نماز پڑھتا ہے تو نماز اس کے لئے سب سے بوجھل چیز ہوتی ہے۔ خشوع سے مراد ہے قلب کا اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ سرافگندہ ہونا، اس کا اللہ تعالیٰ کے پاس پر سکون اور مطمئن ہونا اور اس کے سامنے ذلت و فقر کے ساتھ اس کی ملاقات کی امید پر انکسار کا اظہار کرنا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت)ۙالَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ ] یعنی جو یقین کرتے ہیں (آیت) اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ ] کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ (آیت) وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ” اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹیں گے “ اس یقین نے ان کے لئے عبادات کو آسان کردیا ہے۔ یہی یقین مصائب میں ان کے لئے تسلی کا موجب ہوتا ہے، تکالیف کو ان سے دور کرتا ہے اور برے کاموں سے انہیں روکتا ہے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے بلند بالا خانوں میں ہمیشہ رہنے اولی نعمتیں ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر ایمان نہیں رکھتا اس کے لئے نماز اور دیگر عبادات سب سے زیادہ شاق گزرنے والی چیزیں ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی نصیحت کی خاطر اور ان کو برائیوں سے بچانے، نیکیوں پر آمادہ کرنے کے لئے ان پر اپنی نعمتوں کی مکرر یاد دہانی کرائی ہے اور انہیں قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ (آیت) لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ ] جس روز کوئی نفس کسی کے کوئی کام نہ آئے گا اگرچہ یہ انبیائے کرام اور صالحین کے نفوس کریمہ ہی کیوں نہ ہوں۔ (آیت) عن نفس) اگرچہ یہ نفس قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ (آیت (شیا) ” کچھ بھی “ یعنی وہ کم یا زیادہ کوئی کام بھی نہ آسکے گا۔ انسان کو صرف اس کا وہی عمل کام دے گا جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے۔ (آیت) وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ۔ اس نفس کے بارے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔ ہاں شفاعت اس شخص کی قبول ہوگی جس کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور سج کی بابت شفاعت کی اجازت دی جائے گی اس کو بھی وہ پسند کرتا ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے اسیع مل کو پسند کرے گا جو صرف اس کی رضا کے لئے اور سنت رسول کے مطابق کیا گیا ہوگا (گویا ہر شخص شفاعت کرنے کا مجاز ہوگا نہ ہر کسی کے لئے شفاعت ہی کی جاسکے گی) (آیت) وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ) یعنی اس سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ولو ان للذین ظلموا۔۔ الخ۔ (الزمر 48) ” اگر ان لوگوں کے پاس جنہوں نے ظلم کیا وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو تو وہ برے عذاب سے بچنے کے لئے اسے فدیہ میں دیں گے۔ “ (مگر ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ) (آیت) وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ” اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے ‘ یعنی ان سے وہ عذاب ہٹایا نہیں جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بات کی نفی کردی کہ وہ کسی بھی پہلو سے قیامت کے روز مخلوق سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت) لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا ] حصول منافع کے بارے میں ہے اور (آیت) وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ۔ دفع مضرت کے بارے میں ہے اور یہ فنی مستقبل میں کسی امرنافع کے بارے میں ہے۔ (آیت) وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ۔ یہ اس نفع کی نفی ہے جو معاوضہ دے کر اس شخص سے طلب کیا اجتا ہے جو اس نفع کا مالک ہو۔ یہ معاوضہ کبھی تو فدیہ ہوتا ہے کبھی اس کے علاوہ سفارش وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ پس یہ چیز بندے پر واجب کرتی ہے کہ وہ مخلوق سے تعلق اور امید کو منقطع کر دے کیونکہ اسے علم ہے کہ مخلوق اسے ذرہ بھر نفع پہنچانے پر قادر نہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو جوڑے جو نفع پہنچانے والا اور تکالیف کو دور کرنے والا ہے، پس صرف اسی کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی عبادت پر اسی سے مدد طلب کرے۔
Top