Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور (ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو قوم فرعون سے مخلصی بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی
یہاں سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تفصیلاً شمار شروع ہوتا ہے، چناچہ فرمایا : آیت 49-57 (آیت) وَاِذْ نَجَّيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یعنی فرعون، اس کے سرداروں اور اس کی فوجوں سے نجات دی جو انہیں اس سے قبل ذلت آمیز عذاب میں مبتلا رکھتے تھے (آیت) يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ” وہ دیتے تھے تمہیں سخت عذاب۔ “ یعنی تمہیں ایذاء پہنچاتے اور تم سے کام لیتے تھے (آیت) يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ ۔ اور وہ یہ کہ تمہارے بیٹوں کو اس خوف سے ذبح کرتے تھے کہ کہیں تمہاری تعداد بڑھ نہ جائے (آیت) وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ ” اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے “ یعنی وہ تمہاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے پس تمہاری حالت یہ تھی کہ یا تو تمہیں قتل کردیا جاتا تھا یا تم سے مشقت کے کام لے کر تمہیں ذلیل کیا جاتا تھا اور تمہیں احسان کے طور پر اور اظہار غلبہ کے لئے زندہ رکھا جاتا تھا۔ یہ توہین اور اہانت کی انتہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل نجات عطا کر کے اور ان کے آنکھوں دیکھتے ان کے دشمن کو غرق کر کے ان پر احسان فرمایا تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔ (آیت) وَفِىْ ذٰلِكُمْ ” اور اس میں “ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس نجات عطا کرنے میں (آیت) بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ” تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش ہے “ پس یہ چیز تم پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے احکامات کی اطاعت کو واجب کرتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان پر تورات نازل کرے گا جو عظیم نعمتوں اور مصالح عامہ کو متضمن ہوگی۔ پھر وہ اس میعاد کے مکمل ہونے تک صبر نہ کرسکے چناچہ انہوں نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ (آیت) وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ” اور تم ظالم تھے ‘ یعنی اپنے ظلم کو جاننے والے۔ تم پر حجت قائم ہوگئی۔ پس یہ سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا گناہ ہے، پھر اس نے اپنے نبی موسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان پر تمہیں توبہ کرنے کا حکم دیا اور اس توبہ کی صورت یہ تھی کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے تمہیں معاف کردیا۔ (آیت) ’ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ’ شاید کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ “ (آیت) وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ” اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ ! ہم ہرگز تیری بات کا یقین نہیں کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو سامنے دیکھ لیں “ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقابلے میں تمہاری جرأت کی انتہا تھی۔ (آیت) فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ پس تمہیں بےہوشی نے آلیا۔ (اس بےہوشی سے مراد) یا تو موت ہے یا عظیم بےہوشی۔ (آیت) وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ تم اس تمام واقعہ کو دیکھ رہے تھے۔ ہر شخص اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا۔ ” پھر تمہارے مرنے کے بعد ہم نے تمہیں دوبارہ زندہ کیا شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن سے اس نے بنی اسرائیل کو اس بیابان و صحرا میں نوازا جو سائے اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی سے خالی تھا۔ فرمایا : (آیت) وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ ” پھر ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور تم پر ” من “ نازل کیا۔ “ (المن) ہر قسم کے اس رزق کے لئے ایک جامع نام ہے جو بغیر کسی جدوجہد کے حاصل ہوتا ہو مثلاً سو نٹھ، کھمبی اور خبز (روٹی) (ایک) قسم کی نباتات) وغیرہ۔ (والسلوی) ایک چھوٹا سا پرندہ تھا جسے ” سمانی “ (ایک قسم کی بٹیر) کہا جاتا ہے اس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔ پس یہ من اور سلویٰ اس مقدار میں ان پر اترتے کہ ان کی خوراک کے لئے کافی ہوتے (آیت) كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ” ان پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دیں۔ “ یعنی ہم نے تمہیں ایسا رزق عطا کیا ہے کہ جیسا رزق آسودہ حال شہروں کے باشندوں کو بھی حاصل نہیں۔ مگر انہوں نے اس نعمت کا شکرادانہ کیا اور ان کے دلوں کی سختی اور گناہوں کی کثرت بدستور قائم رہی۔ (آیت) وَمَا ظَلَمُوْنا یعنی انہوں نے ہمارے احکام کے برعکس مخالف افعال کا ارتکاب کر کے ہم پر ظلم نہیں کیا۔ کیونکہ اہل معاصی کی معصیت اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جیسے اطاعت گزاروں کی اطاعت اسے فائدہ نہیں پہنچاتی۔ (آیت) َا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ ” لیکن وہ اپنے ہی نفسوں پر ظلم کرتے تھے “ یعنی اس کا نقصان انہی کی طرف لوٹے گا۔
Top