Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
آیات نمبر 8 تا 10 معلوم ہونا چاہیے کہ نفاق کا اظہار کرنے اور باطن میں برائی چھپانے کا نام ہے۔ اس تعریف میں نفاق اعتقادی اور نفاق عملی دونوں شامل ہیں۔ جیسے نبی ﷺ نے بھی اپنے اس فرمان میں اس کا ذکر فرمایا :” آیۃ المنافق ثلاث، اذا حدت کذب واذا وعدا خلف واذا ئتمن خان) (1) ” منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ “ ایک اور روایت میں آتا ہے (واذا خاصم فجر)-2” جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔ “ رہا نفاق اعتقادی جو دائرہ اسلام سے خاج کرنے والا ہے۔ تو یہ نفاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس سورت میں اور بعض دیگر سورتوں میں متصف فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد تک نفاق کا وجود نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں اہل ایمان کو غلبے اور فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ پس مدینہ میں رہنے والے وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ذلیل ٹھہرے۔ چناچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے دھوکے کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تاکہ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ پس وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے درآنحالیکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان منافقین کے احوال و اوصاف ان کے سامنے واضح کردیے جن کی بنا پر وہ پہچان لیے جاتے تھے تاکہ اہل ایمان ان سے دھوکہ نہ کھا سکیں نیز منافقین اپنے بہت سے فسق و فجور سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (یحذر المنفقون ان تنزل علیھم سورة تنبءھم بما فی قلوبھم) (التوبہ، 9/36) ” منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نہ نازل کردی جائے جو ان کے دل کی باتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کر دے۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل نفاق کو بیان کیا اور فرمایا :” ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمؤمنین) ” بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں “ کیونکہ یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی بات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے (وما ھم بمومنین) کہہ کر انہیں جھوٹا قرار دیا۔ اس لئے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس پر دل اور زبان متفق ہوں، ان منافقین کا یہ اظہار ایمان تو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا ہے۔ (المخادعۃ) ” دھوکہ “ یہ ہے کہ دھوکہ دینے والا شخص جس کو دھوکہ دیتا ہے اس کے سامنے زبان سے جو کچھ ظاہر کرتا ہے اس کے خلاف اپنے دل میں چھپاتا ہے تاکہ اس شخص سے اپنا مقصد حاصل کرسکے جسے وہ دھوکہ دے رہا ہے۔ پس منافقین نے اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے ساتھ اسی رویہ کو اختیار کیا تو یہ دھوکہ انہی کی طرف لوٹ آیا (یعنی اس کا سارا وبال انہی پر پڑا) اور یہ عجائبات میں سے ہے، کیونکہ دھوکہ دینے والے کا دھوکہ یا تو نتیجہ خیز ہوتا ہے او اسے اپنا مقصد حاصل ہوجاتا ہے یا وہ محفوظ رہتا ہے اور اس کا نتیجہ نہ تو اس کے حق میں ہوتا ہے اور نہ اس کے خلاف مگر ان منافقین کا دھوکہ خود ان کی طرف پلٹ گیا۔ گویا کہ وہ مکر اور چالبازیاں جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لئے کر رہے تھے وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے لئے کر رہے تھے۔ اس لئے کہ ان کے دھوکے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ اہل ایمان کو پس منافقین کے ایمان ظاہر کرنے سے اہل ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اظہار ایمان سے انہوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کرلیا اور ان کا مکرو فریب ان کے سینوں میں رہ گیا اس نفاق کی وجہ سے دنیا میں ان کو رسوائی ملی اور اہل ایمان کو قوت اور فتح و نصرت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ حزن و غم کی دائمی آگ میں سلگنے لگے۔ پھر آخرت میں ان کے جھوٹ اور ان کے کفر و فجور کے سبب سے ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے اس کے شعور سے بےبہرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (فی قلوبھم مرض) ” ان کے دلوں میں روگ ہے “ سے مراد شکوک و شبہات اور نفاق کا مرض ہے۔ قلب کو دو قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں جو اسے صحت و اعتدال سے محروم کردیتے ہیں۔ 1۔ شبہات باطلہ کا مرض 2۔ اور ہلاکت میں ڈالنے والی شہوات کا مرض پس کفر و نفاق اور شکوک و بدعات یہ سب شبہات کے امراض ہیں۔ زنا، فواحش و معاصی سے محبت اور ان کا ارتکاب یہ سب شہوات کے امراض ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فیطمع الذی فی قلبہ مرضٌ) (الاحزاب :32/33) ” پس وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے، وہ طمع کرے گا “ اس مرض سے مراد شہوت زنا ہے۔ برائی سے صرف وہی بچے گا جو ان دو امراض سے محفوظ ہوگا۔ پس اس کو ایمان و یقین حاصل ہوتا ہے اور معاصی کے مقابلے میں صبر کی ڈھال عطا کردی جاتی ہے اور وہ عافیت کا لباس زیب تن کر کے ناز و ادا سے چلتا ہے۔ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا) میں گناہ گاروں کے گناہوں کی تقدیر کی بابت اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ یہ روگ نفاق ان کے سابقہ گناہوں کا نتیجہ ہے، نیز اللہ تعالیٰ انہیں اس کے سبب سے مزید گناہوں میں مبتلا کردیتا ہے جو ان کے لئے مزید سزا کے موجب بنتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ونقلب افدتھم وابصارھم کما لم یومنوا بہ اول مرۃ) (الانعام :110/6) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (وہ اس قرآن پر اسی طرح ایمان نہ لائیں گے جس طرح) وہ پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے “۔ اور فرمایا : (فلما زاغوآ ازاغ اللہ قلوبھم) (الصف :5/6/1) ” جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ “ اور فرمایا :” واما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجساً الی رجسھم (التوبہ :125/9) ” اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کردیا۔ “ پس گناہ کی سزا، گناہ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جانا ہے۔ جیسے نیکی کی جزا یہ ہے کہ اس کے بعد اسے مزید نیکی کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (ویزید اللہ الذین اھتداوا ھدی) (مریم :1/6/19) ” اور وہ لوگ جو ہدایت یاب ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔ “
Top