Tafseer-e-Saadi - Al-Anbiyaa : 107
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
اور (اے محمد ! ) ہم نے تم کو تمام جہاں کے لئے رحمت (بناکر) بھیجا ہے
آیت 107 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب عزیز قرآن کریم کی ستائش کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ قرآن کریم میں ہر چیز سے مکمل کفایت ہے اور اس سے مستغنی نہیں رہا جاسکتا، چناچہ فرمایا (ان فی ھذا لبلغا لقوم عبدین) ” بیشک اس میں البتہ کفایت ہے عبادت گزار لوگوں کے لئے۔ “ یعنی وہ اپنے رب اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچنے کے لئے قرآن عزیز پر اکتفاء کرتے ہیں۔ پس یہ گراں قدر کتاب ان کو جلیل ترین مقاصد اور افضل ترین مرغوبات تک پہنچاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے، جو سب سے زیادہ فضل و شرف کے حامل ہیں، اس سے آگے اور کوئی منزل نہیں کیونکہ قرآن ان کے رب کی، اس کے اسماء وصفات اور افعال کے ذریعے سے معرفت کے لئے کفیل ہے اور غیب کی خبریں بیان کرنے اور حقائق ایمان اور شواہد ایقان کی دعوت کا بھی کفیل ہے، قرآن ہی تمام مامورات اور تمام منہیات کو بیان کرتا ہے، یہ قرآن ہی ہے جو نفس و عمل کے عیوب اور دین کے دقیق و جلیل معاملات میں ان راستوں کی نشاندہی کرتا ہے جن پر اہل ایمان کو گامزن رہنا چاہیے اور یہ قرآن ہی ہے جو شیطان کے راستوں پر چلنے سے بچاتا ہے اور انسان کے عقائد و اعمال میں ان کی مداخلت کے دروازوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ جسے قرآن غنی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس کو غنی نہ کرے اور جس کے لئے قرآن کافی نہیں، اللہ اس کو کفایت نہ کرے۔ پھر اپنے رسول (ٓ) کی، جو قرآن لے کر آئے، مدح بیان کرتے ہوئے فرمایا : (وما ارسلنک الا رحآ للعلمین) پس آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لئے اس کی رحمت کا تحفہ ہیں۔ پس اہل ایمان نے اس رحمت کو قبول کیا، اس کی قدر کی اور اس کے تقاضوں پر عمل کیا اور جو آپ پر ایمان نہ لائے انہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اس کی اس رحمت اور نعمت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ (قل) اے محمآ کہہ دیجئے ! (انما یوحی الی انما الھکم الہ واحد) ” میری طرف تو یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ “ جس کے سوا کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، اس لئے فرمایا (فھل انتم مسلمون) یعنی کیا تم اس کی عبودیت کو اختیار اور اس کی الوہیت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہو ؟۔۔۔. اگر وہ ایسا کریں تو انہیں اپنے رب کی ستائش کرنی چاہیے کہ اس نے ان کو اس نعمت سے سرفراز کیا، جو تمام نعمتوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ (فان تولوا) اگر وہ اپنے رب کی عبودیت سے منہ موڑ لیں تو ان کو گزری ہوئی قوموں پر نازل ہونے والے عذاب اور سزا سے ڈراؤ ! (فقل اذنتکم) یعنی میں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بارے میں تمہیں آگاہ کردیا ہے (علی سوآء) ” برابری پر۔ “ یعنی میں اور تم اس حقیقت کو برابر طور پر جانتے ہیں، اس لئے جب تم پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوڑا بر سے تو یہ نہ کہنا (ما جاء نا من بشیر ولا نذیر) (الماء آ : 5 /91) ” ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا آیا ہے نہ کوئی ڈرانے والا۔ “ بلکہ ہم اس حقیقت سے برابر طور پر آگاہ ہیں کیونکہ میں تم کو ڈرا چکا ہوں اور تمہیں کفر کے انجام کے بارے میں آگاہ کرچکا ہوں اور میں نے تم سے کچھ بھی نہیں چھپایا۔ (وان ادری اقریب ام بعید ما توعدون) یعنی جس عذاب کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے ( میں نہیں جانتا کہ وہ عذاب قریب آن لگا ہے یا دور ہے) کیونکہ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اسی کے قبضہٓ قدرت میں ہے، میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ (وان ادری لعلہ فتنٓ لکم و متاع الی حین) یعنی۔۔۔. شاید اس عذاب میں تاخیر جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو، تمہارے لئے بہت بری ہے اور اگر تم ایک وقت مقرر تک اس دنیا سے متمتع ہوتے ہو تو یہ تمہارے لئے بہت بڑے عذاب کا باعث ہوگا۔ (قل رب احکم بالحق) ” کہا، اے میرے رب ! حق کے ساتھ فیصلہ کر دے “ یعنی ہمارے اور کافروں کی قوم کے درمیان۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرما لی اور اس دنیا میں ان کے درمیان فیصلہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر وغیرہ میں ان کافروں کو سزا دے دی۔ (وربنا الرحمن المستعان علی ما تصفون) یعنی تم جو باتیں بناتے ہوں ان کے مقابلے میں ہم اپنے رب رحمن ہی سے سوال کرتے ہیں اور اسی سے مدد کے طلب گار ہیں، ہم عنقریب تم پر غالب آئیں گے اور عنقریب تمہارا دین ختم ہوجائے گا۔ پس اس بارے میں ہم کسی خود پسندی میں مبتلا ہیں نہ ہم اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم تو رب رحمٰن سے مدد مانگتے ہیں جس کے قبضہٓ قدرت میں تمام مخلوق کی پیشانی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم نے رب رحمٰن سے جس امر کے بارے میں استعانت طلب کی ہے، وہ اپنی رحمت سے ضرور اس کو پورا کرے گا۔۔۔. اور اس نے ایسا کیا۔ وللہ الحمد
Top