Tafseer-e-Saadi - Al-Anbiyaa : 50
وَ هٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُ١ؕ اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ۠   ۧ
وَھٰذَا : اور یہ ذِكْرٌ : نصیحت مُّبٰرَكٌ : بابرکت اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اسے نازل کیا اَفَاَنْتُمْ : تو کیا تم لَهٗ : اس کے مُنْكِرُوْنَ : منکر (جمع)
اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے تو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو ؟
آیت 51-73 اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد مصطفیٰٓ اور ان کی جلیل القدر کتابوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : (ولقد اتینا ابرھیم رشدہ من قبل) یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمدٓ کی بعثت اور ان کی کتابوں کے نازل ہونے سے پہلے، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو زمین و آسمان کی بادشاہی کا مشاہدہ کروایا اور انہیں رشد و ہدایت عطا کی، جس سے ان کے نفس کو کمال حاصل ہوا اور آپ نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی، جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰٓ کے سوا کسی کو عطا نہیں کی اور آپ کے ہدایت یافتہ ہونے کے باعث، آپ کے حسب حال اور آپ کے بلند مرتبہ کی بنا پر رشد کو آپ کی طرف مضاف کیا گیا ورنہ ہر مومن کو اس کے حسب ایمان رشد و ہدایت سے نوازا گیا ہے۔ ) وکنا بہ علمین) ” اور ہم اسکو جانتے تھے۔ “ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو رشد و ہدایت کی، ان کو رسالت کے لئے منتخب کیا، انہیں اپنا خلیل بنایا اور دنیا و آخرت میں انہیں اپنے لئے چن لیا اس لئے کہ ہم جانتے تھے کہ وہ اس مرتبہ کے اہل اور اپنی پاکیزگی اور ذہانت کی بنا پر اس کے مستحق ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان کا اپنی قوم کے ساتھ مباحثہ، شرک سے ان کو روکنے، بتوں کو توڑنے اور ان پر آپ کے حجت قائم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (اذ قال لابیہ و قومہ ماھذہ التماثیل) ” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا، یہ مورتیاں کیا ہیں ؟ “ جن کو تم نے بعض مخلوقات کی صورت پر خود اپنے ہاتھوں سے بنایا اور خود گھڑا ہے (التی انتم لھا عکفون) جن پر تم ان کی عبادت کے لئے قیام اور اس کا التزام کرتے ہو۔۔۔. یہ گھڑے ہوئے پتھر کیا ہیں ؟ ان میں کونسی فضیلت ظاہر ہوئی ہے ؟ تمہاری عقلیں کہاں چلی گئی ہیں کہ تم نے اپنے اوقات کو ان بتوں کی عبادت میں ضافع کردیا، حالانکہ تم نے خود ان کو اپنے ہاتھوں سے گھڑا ہے ؟ یہ سب سے بڑی تعجب انگیز بات ہے کہ جس چیز کو تم خود اپنے ہاتھوں سے گھڑتے ہو اسی کی عبادت کرتے ہو، تو انہوں نے بغیر کسی حجت اور برہان کے اس شخص کا سا جواب دیا جو عاجز اور بےبس ہو اور جسے ادنیٰ سا بھی شبہ نہ ہو، چناچہ انہوں نے کہا : (وجدنا اباء نا) ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسے ہی کرتے پایا ہم بھی ان کی راہ پر گامزن ہیں اور ان کی پیروی میں ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء ومرسلین کے سوا، کسی شخص کا فعل حجت ہے نہ اس کی پیروی ہی کرنا جائز ہے۔ خاص طور پر اصول دین اور توحید الٰہی میں۔۔۔. اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے ان تمام لوگوں کو گمراہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : (لقد کنتم انتم وآباؤکم فی ضلل مبین) یعنی تم اور تمہارے آباؤ اجداد واضح گمراہی میں مبتلا ہو اور کونسی گمراہی ہے جو ان کے شرک میں مبتلا ہونے اور توحید کو ترک کرنے کی گمراہی سے زیادہ بڑی ہو ؟ یعنی اس گمراہی کو پکڑے رہنے کے لئے تم نے جو دلیل دی ہے وہ درست نہیں، تم اور تمہارے باپ دادا کھلی گمراہی پر ہو جو ہر ایک پر واضح ہے۔ (قالوا) انہوں نے تعجب اور ابراہیم (علیہ السلام) کے قول پر استفہام کے طور پر کہا، نیز یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں اور ان کے آباؤ اجداد کو بیوقوف قرار دیا تھا۔ (اجئتنا بالحق ام انت من اللعبین) یعنی کیا وہ بات جو تم نے کہی ہے اور وہ چیز جو تو لے کر آیا ہے، حق ہے ؟ یا تیرا ہمارے ساتھ بات کرنا، کسی دل لگی کرنے والے اور تمسخر اڑانے والے کا بات کرنا ہے جو یہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ؟۔۔۔. پس انہوں نے ان دو امور کی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کو رد کردیا، انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کو اس بنا پر رد کردیا کہ ان کے ہاں یہ بات تسلیم شدہ تھی کہ جو کلام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) لے کر آئے ہیں وہ ایک بیوقوف کا کلام ہے، آپ جو بات کہتے ہیں وہ عقل میں نہیں آتی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی بات کا اس طرح جواب دیا جس سے ان کی سفاہت اور کم عقلی واضح ہوتی تھی، چناچہ فرمایا : (بل ربکم رب السموت والارض الذی فطرھن وانا علی ذلکم من الشھدین) ” بلکہ تمہارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور میں بھی ان باتوں کو ماننے والوں میں سے ہوں۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے لئے عقلی اور نقلی دونوں دلیلوں کو جمع کردیا۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ ہر ایک شخص، حتیٰ کہ وہ خود بھی جنہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ جھگڑا کیا، جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے انسانوں، فرشتوں، جنوں، جانوروں اور زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور وہی ہے جو مختلف الانواع تدابیر کے ساتھ ان کی تدبیر کر رہا ہے۔ پس تمام مخلوق پیدا شدہ، محتاج تدبیر اور زیر تصرف ہے اور جن کی یہ مشرکین عبادت کرتے ہیں وہ بھی اس مخلوق میں داخل ہیں۔۔۔. کیا یہ چیز اس شخص کے نزدیک، جو ادنیٰ سی عقل اور تمیز رکھتا ہے۔۔۔. مناسب ہے کہ ایک ایسی مخلوق ہستی کی عبادت کی جائے جو کسی کے زیر تصرف ہے، جو کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں، جو زندگی اور موت پر قدرت رکھتی ہے نہ دوبارہ زندہ کرنے پر اور خالق، رازق اور مدبر کائنات کی عبادت کو چھوڑ دیا جائے ؟ نقلی اور سمعی دلیل وہ ہے جو انبیاء کرام (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ وہ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ معصوم اور غلطیوں سے پاک ہے اور وہ صرف حق کی خبر دیتا ہے اور دلیل سمعی اس کی ایک قسم کسی نبی کی گواہی ہے، بنا بریں ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : (وانا علی ذلکم) ” اور میں اس پر “ یعنی اس امر پر کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے اور اس کے سوا ہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔ (من الشھدین) ” گواہی دینے والوں میں سے ہوں۔ “ اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کے بعد کونسی گواہی ہے جو انبیاء و رسل کی گواہی سے افضل ہو خاص طور پر اولوالعزم رسول اور رحمان کے خلیل کی گواہی سے ؟ چونکہ آپ نے دلیل سے واضح کردیا تھا کہ ان کے بت کسی تدبیر کا اختیار نہیں رکھتے، اس لئے آپ نے ان کو بالفعل ان کے خود ساختہ معبودوں کی بےبسی اور خود اپنی مدد کرنے پر بےاختیاری کا مشاہدہ کروانے کا ارادہ کیا اور ایسا طریق کار استعمال کیا کہ وہ اپنے معبودوں کی بےبسی اور بےاختیاری کا خود اقرار کریں، اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : (وتا للہ لا کی دن اصنامکم) یعنی تمہیں لاجواب کرنے کے لئے چال کے طور پر میں ان بتوں کو توڑ دوں گا (بعد ان تولوا مدبرین) ” جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔ “ یعنی جب اپنی کوئی عید منانے کے لئے چلے جاؤ گے۔ چناچہ جب وہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چپکے سے ان بتوں کے پاس گئے (فجعلھم جذذا) اور ان بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا۔ تمام بت ایک ہی بت خانے میں جمع تھے، اس لئے ان سب کو توڑ دیا۔ (الا کبیرا لھم) سوائے ان کے بڑے بت کے اور اسے ایک خاص مقصد کے لئے چھوڑ دیا، جسے عنقریب اللہ تعالیٰ بیان فرمائے گا۔ ذرا اس عجیب ” احتراز “ پر غور فرمائیے کیونکہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مغضوب ہے۔ اس پر تعظیم کے الفاظ کا اطلاق صحیح نہیں سوائے اس صورت میں کہ تعظیم کی اضافت تعظیم کرنے والوں کی طرف ہو۔ جیسا کہ نبیٓ کا طریقہ تھا کہ آپ جب زمین کے مشرک بادشاہوں کی طرف خط لکھتے تو اس طرح مخاب فرماتے : (الی عظیم الفرس او الی عظیم الروم) یعنی ” اہل فارس کے بڑے کی طرف یا اہل روم کے بڑے کی طرف “ اور (الی العظیم) ” یعنی بڑی ہستی کی طرف “ جیسے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (الا کبیرا لھم) ” ان کے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ “ اور یہ نہیں فرمایا (کبیرا من اصنامھم) ” ان کے بتوں میں سے بڑے بت کو “ پس یہ بات اس لائق ہے کہ آدمی اس پر متنبہ رہے اور اس ہستی کی تعظیم سے احتراز کرے جسے اللہ تعالیٰ نے حقیر قرار دیا ہے۔ البتہ اس تعظیم کی اضافت ان لوگوں کی طرف کی جاسکتی ہے جو اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ (لعلھم الیہ یرجعون) یعنی ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے اس بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور آپ کی حجت و دلیل سے زچ ہو کر اس حجت کی طرف التفات کریں اور اس سے روگردانی نہ کریں اسی لئے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا : (فرجعوا الی انفسھم) ” پس انہوں نے اپنے دل میں غور کیا۔ “ جب انہوں نے اپنے معبودوں کی اہانت اور رسوائی دیکھی تو کہنے لگے : (من فعل ھذا بالھتنا انہ لمن الظلمین) ” ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کس نے کیا ہے ؟ یقیناً وہ ظالموں میں سے ہے۔ “ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ظالم کہا، حالانکہ وہ خود اس صفت کے زیادہ مستحق ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بتوں کو ت وڑا اور آپ کا ان بتوں کو توڑنا آپ کے بہترین مناقب میں سے ہے، نیز آپ کے عدل اور آپ کی توحید پر دلالت کرتا ہے۔ ظالم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان بتوں کو معبود بنا لیا تھا، حالانکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے معبدوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ (قالوا سمعنا فتی یذکرھم) یعنی جو ان بتوں کی عیب چینی اور مذمت کرتا تھا۔ جس کا یہ حال ہے یقیناً اسی نے ان بتوں کو توڑا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان بتوں کے خلاف چال چلنے کی بات کر رہے تھے تو ان مشرکین میں سے کسی نے سن لیا ہو۔ جب ان کے سامنے یہ بات متحقق ہوگئی کہ یہ سب کچھ ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا ہے (قالو فاتوا بہ) تو کہنے لگے ابراہیم کو لے کر آؤ (علی اعین الناس) یعنی لوگوں کے سامنے (لعلھم یشھدون) یعنی جس شخص نے ان کے معبودوں کو توڑا ہے اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کے وقت لوگ موجود ہوں اور یہی بات ابراہیم (علیہ السلام) چاہتے تھے اور یہی ان کا مقصد تھا کہ لوگوں کے بھرے مجمع میں حق ظاہر ہو لوگ حق کا مشاہدہ کریں اور ان پر حجت قائم ہوجائے، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے اس وقت کہا تھا جب اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مقابلے کیلئے ایک دن مقرر کرنے کے لئے کہا تھا، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (موعدکم یوم الزینٓ و ان یحشرا الناس ضحی) (طہ : 02 / (95 ” تمہاریلئے جشن کا دن مقرر ہوا چاشت کے وقت لوگوں کو اکٹھا کیا جائے۔ “ جب لوگ اکٹھے ہوگئے اور ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی حاضر کیا گیا تو انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پوچھا ( ءانت فعلت ھذا) ” کیا تو نے یہ کیا ہے ؟ “ 160 یعنی بتوں کو توڑا ہے (بالھتنا یابرھیم) یہ استفہام تقریری ہے یعنی اس اقدام کی تجھے کیسے جرٓت ہوئی ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے لوگوں کے سامنے بھرے مجمع میں جواب دیا (بل فعلہ کبیر ھم ھذا) یعنی اس بڑے بت نے ناراض ہو کر ان کو توڑا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ان کی بھی عبادت کی جاتی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ عبادت صرف تمہارے اس بڑے بت کی ہو۔ اس سے ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد الزامی جواب اور حجت قائم کرنا تھا، اس لئے فرمایا : (فسئلوھم ان کانوا ینطقون) ” ان سے پوچھو، اگر یہ بول سکتے ہیں۔ “ یعنی ان ٹوٹے ہوئے بتوں سے پوچھو کہ ان کو کیوں توڑا گیا ؟ اور جس بت کو نہیں توڑا گیا، اس سے پوچھو کہ اس نے ان بتوں کو کیوں توڑا ؟ اگر وہ بول سکتے ہیں تو تمہیں جواب دیں۔۔۔. میں، تم اور ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بت بول سکتے ہیں نہ کلام کرسکتے ہیں، کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان۔ بلکہ اگر کوئی ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو یہ خود اپنی مدد کرنے پر بھی قادر نہیں۔ (فرجعوا الی انفسھم) ” پس وہ اپنے آپ ہی کی طرف لوٹے۔ “ یعنی ان کی عقل ان کی طرف لوٹی اور انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ ان بتوں کی عبادت کر کے گمراہی میں مبتلا تھے اور انہوں نے اپنے ظلم اور شرک کا اقرار کرلیا۔ (فقالوا انکم انتم الظلمون) ” اور کہنے لگے، تم ہی ظالم ہو۔ “ پس اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد حاصل ہوگیا اور ان کے اس اقرار کے ساتھ، کہ ان کا موقف باطل اور ان کا فعل کفر اور ظلم ہے، ان پر حجت قائم ہوگئی۔ مگر وہ اس حالت پر قائم نہ رہ سکے بلکہ (نکسوا علی رء وسھم) ” اوندھے ہوگئے اپنے سروں کے بل۔ “ یعنی ان کا معاملہ بدل گیا ان کی عقل اوندھی ہوگئی اور ان کے خواب پریشان ہوگئے۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہنے لگے : (لقد علمت ما ھولاء ینطقون) تم کیسے ہمارے ساتھ ٹھٹھا اور تمسخر کر رہے ہو اور ہمیں کہہ رہے ہو کہ ہم ان بتوں سے پوچھ لیں حالانکہ تو جانتا ہے کہ یہ بول نہیں سکتے ؟ اس پر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی زجر و توبیخ اور علی الاعلان ان کے شرک اور عبادت کے لئے ان کے خداؤں کے عدم استحقاق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (افتعبدون من دون اللہ ما لا ینفعکم شیئا ولا یضرکم) ” کیا جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ کوئی تکلیف دور کرسکتے ہیں تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو ؟ “ (اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ) ” تْف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم، اللہ کو چھوڑ کر، عبادت کرتے ہو۔ “ یعنی تم کتنے گمراہ، تمہاری تجارت کتنی گھاٹے کی تجارت اور تم اور تمہارے معبود جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، کتنے گھٹیا ہو۔ (افلا تعقلون) کیا تم عقل نہیں رکھتے کہ صورتحال کو پہچان سکو ؟ چونکہ تم نے عقل سے عاری ہونے کی بنا پر جانتے بوجھتے، جہالت اور گمراہی کا ارتکاب کیا ہے اس لئے جانوروں کا حال تمہارے حال سے کہیں بہتر ہے۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو لاجواب کردیا، اور وہ اپنی دلیل کو واضح نہ کرسکے تو آپ کو سزا دینے کے لئے قوت استعمال کی، چناچہ وہ کہنے لگے : (حرقوہ وانصروا الھتکم ان کنتم فعلین) یعنی اسے بدترین طریقے سے قتل کرو، اپنے معبودوں کی حمایت اور تائید میں، اسے آگ میں ڈال دو ۔۔۔. ان کی ہلاکت ہے، وہ ان معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے معبود ان کی مدد کے محتاج ہیں، پھر بھی انہوں نے بےبس ہستیوں کو معبود بنا لیا۔ پس جب انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی مدد فرمائی اور آگ کو حکم دیا : (ینارکونی بردا وسلم ا علی ابراھیم) اے آگ ! ” ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ “ اور آگ سلامتی کیساتھ ٹھنڈی ہوگئی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کوئی اذیت اور کوئی گزند نہ پہنچی۔ (وارادو بہ کیدا) ” انہوں نے ابراہیم کے ساتھ برا چاہا۔ “ 160 یعنی ان کو جلانے کا ارادہ کیا (فجعلنھم الاخسرین) ” پس ہم نے انہی کو نقصان اٹھانے والوں میں سے کردیا۔ “ یعنی دنیا و آخرت میں ان کو گھاٹا کھانے والوں میں شامل کردیا اور اس کے برعکس خلیل (علیہ السلام) اور آپ کے پیروکاروں کو نفع اٹھانے اور فلاح پانے والے لوگوں میں شامل کردیا۔ (ونجینہ ولوطا) ” اور ہم نے اسے اور لوط کی نجات دی۔ “ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر حضرت لوط (علیہ السلام) کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو کفار سے نجات دی اور وہ ہجرت کر گئے (الی الارض التی برکنا فیھا للعلمین) ” اس زمین کی طرف جس میں ہم نے جہانوں کے لئے برکت رکھی ہے۔ “ اس سے مراد ملک شام ہے، یعنی وہ اپنی قوم کو ” بابل “ یعنی عراق میں چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے (وقال انی ذاھب الی ربی) (الصفت : 73/99) ” انہوں نے کہا، میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں۔ “ سرزمین شام کی برکتوں میں سے چند یہ ہیں کہ بہت سے انبیاء کرام یہیں پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرت خلیل (علیہ السلام) کی ہجرت کے لئے چن لیا اور اللہ تعالیٰ کے تین مقدس گھروں میں ایک گھر یہیں واقع ہے یعنی بیت المقدس۔ ) ووھبنا لہ) ” اور ہم نے عطا کئے اسے۔ “ جب وہ اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کر کے ہجرت کر گئے (اسحق و یعقوب) ” اسحاق اور یعقوب بن اسحاق (علیہ السلام) “ (نافآ) ” مزید “ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے بوڑھا ہوجانے کے بعد، جبکہ ان کی بیوی بھی بانجھ تھی۔ فرشتوں نے ان کو اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری دی۔ (ومن ورآء اسحاق یعقوب) (ھود : 11 /17) ” اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔ “ اور یعقوب سے مراد حضرت اسرائیل (علیہ السلام) ہیں جو ایک بہت بڑی امت کے جد امجد ہیں اور حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام، فضیلت والی امت عربی کے جد امجد ہیں۔ اولین و آخرین کے سردار حضرت محمد مصطفیٓ آپ ہی کی نسل میں سے ہیں۔ ) وکلا) ” اور ہر ایک کو۔ “ یعنی ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کو (جعلنا صلحین) ” ہم نے نیک بنایا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرنے والے۔ ان کی صالحیت میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رہبر و راہنما بنایا جو اس کے حکم سے راہنمائی حاصل کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ راہنما ہو اور لوگ اس کی راہنمائی میں راہ راست پر گامزن ہوں۔۔۔. چلنے والے ان کی راہنمائی میں چلتے تھے اور ان کی راہنمائی کی یہ نعمت اس سبب سے عطا ہوئی کہ وہ صابر تھے اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھتے تھے۔ ) یھدون بامرنا) یعنی ہمارے دین کے ذریعے سے لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔ وہ ان کو اپنی خواہشات نفس کے مطابق حکم نہیں دیتے تھے بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی رضا کی اتباع ہی کا حکم دیتے تھے اور بندہ اس وقت تک امامت کے رتبے پر فائز نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف دعوت نہ دے۔ (واوحینا الیھم فعل الخیرت) ” اور ہم نے ان کی طرف وحی کی نیک کاموں کے کرنے کی۔ “ وہ خود بھی ان نیک کاموں کو سرانجام دیتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دیتے تھے۔ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق تمام نیک کاموں کو شامل ہے۔ ) واقام الصلوٓ وایتاء الزکوٓ) ” اور نماز قائم کرنے اور زکوٰٓ ادا کرنے کی۔ “ یہ عام پر خاص کے عطف کے باب سے ہے کیونکہ ان دونوں عبادات کو باقی تمام عبادات پر شرف اور فضیلت حاصل ہے، نیز اس لئے بھی کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان عبادات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اس نے دین کو قائم کرلیا اور جس نے ان دونوں عبادات کو ضائع کردیا، اس سے ان کے علاوہ دیگر امور کو ضائع کرنے کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے، نیز نماز ان عملوں میں سب سے افضل عمل ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے حق پر مبنی ہیں اور زکوٰٓ ان عملوں میں سب سے افضل عمل ہے جن میں اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کرنے کا پہلو پایا جاتا ہے۔ (وکانوا لنا عبدین) ” اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔ “ یعنی وہ ہمیشہ اپنے تمام اوقات میں قلبی، قولی اور بدنی عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ پس وہ اس بات کے مستحق ہوگئے کہ عبادت ان کا وصف بن جائے، چناچہ وہ اس صفت سے متصف ہوگئے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو متصف ہونے کا حکم دیا اور جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
Top