Tafseer-e-Saadi - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑو اور تو سب سے بہتر وارث ہے
آیت 89 یعنی ہمارے بندے اور رسول زکریا (علیہ السلام) کو اس کی تعریف و تعظیم کے ساتھ اور ان مناقب و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے یاد کیجئے۔ ان جملہ فضائل میں یہ عظیم منقبت بھی شامل ہے کہ انہوں نے مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کی اور ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوئی۔ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا : (رب لا تذرنی فردا) ” اے رب ! مجھے تنہا نہ چھوڑنا “ یعنی اللہ تعالیٰ سے کہا : (مریم : 91 /4۔ 6) ” اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور پڑگئیں اور سر پر بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوگیا۔ اے میرے رب ! میں تجھ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے رشتہ داروں کے بارے میں خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو اپنی عنایت سے مجھے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب ! تو اسے ایک پسندیدہ انسان بنا۔ “ ان آیات کریمہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (رب لا تذرنی فردا) سے مراد یہ ہے کہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ آپ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کرنے کے لئے کوئی آپ کا قائم مقام نہ ہوگا، نیز یہ کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) اس وقت تنہا تھے کوئی ان کا خلف رشید نہ تھا جو دعوت میں ان کی اعانت کرتا۔ (وانت خیر الورثین) یعنی تو باقی رہنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور بھلائی میں میرے کسی خلف رشید سے بہتر ہے اور تو اپنے بندوں کے ساتھ مجھ سے زیادہ رحم کرنے والا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ میرا دل مطمئن اور نفس کو سکون حاصل ہو اور میرے لئے اس کا ثواب جاری رہے۔ (فاستجبنا لہ و وھبنا لہ یحی) ” پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا۔ “ جو ایسا مکرم نبی ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس نام کا کوئی شخص نہیں کیا (واصلحنا لہ زوجہ) ” اور ہم نے درست کردیا اس کے لئے اس کی بیوی کو۔ “ 160 یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی بانجھ تھیں اور ان کا رحم بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی زکریا (علیہ السلام) کی خاطر ان کے رحم کو درست کر کے اسے حمل کے قابل بنادیا۔ نیک ساتھی اور ہم نشین کے فوائد میں سے ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے لئے بابرکت ہوتا ہے۔ پس حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ماں باپ میں (برکت کے لئے) مشترک ہوگئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تمام انبیاء ومرسلین کا فرداً فرداً ذکر کرنے کے بعد ان سب کو عمومی مدح و ثنا سے نوازا ہے چناچہ فرمایا : (انھم کانوا یسرعون فی الخیرت) یعنی وہ نیکیوں میں سبقت کرتے تھے، اوقات فاضلہ میں نیکیاں کرتے تھے اور ان کی تکمیل اس طریقے سے کرتے تھے جو ان کے لائق اور ان کے لئے مناسب ہو۔ وہ مقدور بھر کسی فضیلت کو نہ چھوڑتے تھے اور فرصت کو غنیمت جانتے تھے (ویدعوننا رغبا ورھبا) یعنی ہم سے دنیا و آخرت کے مرغوب امور کا سوال کرتے تھے اور دنیا و آخرت کے ضرر رساں، خوفناک امور سے ہماری پناہ طلب کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھتے تھے، وہ غافل اور کھیل کود میں ڈوبے ہوئے تھے نہ اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور جرٓت کرتے تھے۔ (وکانوا لنا خشعین) یعنی ہمارے سامنے خشوع، تذلل اور انکساری کا اظہار کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے رب کی کامل معرفت رکھتے تھے۔
Top