Tafseer-e-Saadi - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور ان (مریم) کو (بھی یاد کرو) جنہوں نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا تو ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی اور ان کو ان کے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنادیا
آیت 91 یعنی مریم علیہھا السلام کا، ان کی مدح و ثنا کے ساتھ، ان کی قدر و منزلت کا بیان اور ان کے فضل و شرف کا اعلان کرتے ہوئے، ذکر کیجئے ! فرمایا، (والتی احصنت فرجھا) یعنی جس نے حرام کے قریب جانے سے بلکہ حلال سے بھی اپنی شرمگاہ کو بچائے رکھا۔ پس مریم علیھا السلام نے ہمہ وقت عبادت میں مشغول اور اپنے رب کی خدمت میں مستغرق رہنے کی وجہ سے شادی نہیں کی تھی۔ جب حضرت جبریل (علیہ السلام) ایک کامل اور خوبصورت مرد کی شکل میں مریم علیھا السلام کے پاس آئے تو آپ کہنے لگیں : (انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا) (مریم : 91/81) ” میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں، اگر تو اللہ سے ڈرتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیھا السلام کو ان کے عمل کی جنس ہی سے اس کا بدلہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بغیر باپ کے ایک بیٹے سے نوازا۔ جبریل (علیہ السلام) نے پھونک ماری تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت مریم علیھا السلام کو حمل ٹھہر گیا (وجعلنھا و ابنھا آیت للعلمین) ” اور کردیا ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے کو نشانی جہانوں کے لئے۔ “ کیونکہ حضرت مریم علیھا السلام کو بغیر کسی مرد کے چھوئے حمل ٹھہرا اور پھر بیٹے کو جنم دیا اور اس بیٹے نے گہوارے میں کلام کیا اور بہتان طراز آپ پر جو تہمت لگاتے تھے اس سے مریم علیھا السلام کی برٓت کا اعلان کیا اور اسی حالت میں انہوں نے اپنے بارے میں آگاہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر معجزات ظاہر فرمائے جو کہ سب کو معلوم ہیں۔ حضرت مریم اور ان کا فرزند ارجمند علیھا السلام تمام جہانوں کے لئے ایک نشانی بن گئے لوگ نسل در نسل اس واقعے کو بیان کرتے اور اس سے عبرت حاصل کرتے چلے آرہے ہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیائے کرام علیھم السلام کا ذکر فرمایا تو لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : (ان ھذہ امتکم آپ واحآ) یہ تمام انبیاء ومرسلین جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے وہ تمہاری امت اور تمہارے امام ہیں جن کی راہنمائی میں تم ان کے طریقے کی پیروی کرتے ہو۔ ان سب کا دین ایک، سب کا راستہ ایک اور سب کا رب ایک ہے۔ بنا بریں فرمایا : (وانا ربکم) میں تمہارا رب ہوں جس نے تمہیں پیدا کیا اور دین و دنیا میں اپنی نعمت کے ذریعے سے تمہاری پرورش کی۔ جب تمہارا رب ایک، تمہارا نبی ایک اور تمہارا دین ایک، یعنی عبادت کی تمام انواع کے ذریعے ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔۔۔. تو تمہارا وظیفہ اور تم پر فرض ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو، اس لئے فرمایا : (فاعبدون) ” پس تم میری ہی عبادت کرو۔ “ پس حرف ” فاء “ کے ذریعے سے اس جملے کو گزشتہ مضمون کے ساتھ اس طرح مرتب کیا جس طرح مسبب سبب پر مرتب ہوتا ہے۔ مناسب یہی تھا کہ اس امر پر سب کا اتفاق اور اجتماع ہوتا اور اس میں تفرق اور تشتت نہ ہوتا مگر ظلم اور زیادتی سے افتراق اور تشتت پیدا ہو کر رہا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وتقطعوا امرھم بینھم) یعنی انبیائے کرام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے، فرقوں میں تقسیم اور تشتت کا شکار ہوگئے۔ ان میں ہر فرقہ دعویٰ کرتا تھا کہ حق اس کے ساتھ ہے اور دوسرا فرقہ باطل پر ہے۔ (کل حزب بما لدیھم فرحون (الروم : 03 /23) ” ہر ایک گروہ ان باتوں پر جو ان کے پاس ہیں خوش ہیں “ اور یہ بات معلوم ہے کہ ان میں سے راہ صواب پر صرف وہی ہے جو انبیاء کرام (علیہم السلام) کی اتباع کرتے ہوئے دین قویم اور صراط مستقیم پر گامزن ہے۔۔۔. اور یہ حقیقت اس وقت ظاہر ہوگی جب پردہ ہٹ جائے گا اور اصلیت سامنے آجائے گی اور اللہ تعالیٰ فیصلوں کے لئے تمام لوگوں کو اکٹھا کرے گا تب اس وقت صاف نظر آئے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون، اس لئے فرمایا : (کل) تمام فرقوں میں سے ہر فرقہ (الینا رجعون) ہماری ہی طرف لوٹے گا اور ہم اسے پوری پوری جزا دیں گے۔ پھر منطوق اور مفہوم کے اسلوب میں، اس جزا کی تفصیل بیان کی، فرمایا : (فمن یعمل من الصلحت) یعنی ایسے عمل کئے جن کو انبیائے کرام نے مشروع کیا اور کتب الٰہیہ نے ان کی ترغیب دی۔ (وھو مومن) یعنی وہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں پر ایمان رکھتا ہو۔ (فلا کفران لسعیہ) یعنی ہم اس کی کوششوں کو ضائع کریں گے نہ باطل کریں گے، بلکہ اس کو کئی گنا بڑھا کر اجر عطا کریں گے۔ (وانا لہ کتبون) یعنی ہم اس کی کوشش کو لوح محفوظ اور ان صحیفوں میں لکھنے والے ہیں جو کراماً کاتبین کے پاس ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کوئی نیک کام کرے اور وہ مومن نہ ہو تو وہ ثواب آخرت سے محروم اور اپنے دین و دنیا میں خائب و خاسر ہوگا۔
Top