Tafseer-e-Saadi - Al-Anbiyaa : 96
حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب فُتِحَتْ : کھول دئیے جائینگے يَاْجُوْجُ : یاجوج وَمَاْجُوْجُ : اور ماجوج وَهُمْ : اور وہ مِّنْ : سے كُلِّ : ہر حَدَبٍ : بلندی (ٹیلہ) يَّنْسِلُوْنَ : پھیلتے (دوڑتے) آئیں گے
یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں اور وہ ہر بلندی سے دوڑ رہے ہوں
آیت 96 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے لئے تحذیر ہے کہ وہ اپنے کفر اور معاصی پر جمے نہ رہیں۔ یاجوج و ماجوج کے کھلنے کا وقت قریب ہے اور یاجوج و ماجوج بنی آدم کے دو قبیلوں کا نام ہے۔ جب ذوالقرنین سے ان کے فساد فی الارض کا شکوہ کیا گیا تو اس نے درے کو دیوار کے ذریعے بند کر کے ان کا راستہ مسدود کردیا۔ آخری زمانے میں یہ درہ کھل جائے گا اور وہ اس طرح لوگوں کی طرف نکلیں گے جیسے اللہ نے یہاں ذکر فرمایا ہے کہ وہ نہایت تیزی سے ہر ٹیلے سے نیچے اترتے نظر آئیں گے۔ یہ آیت کریمہ ان کی کثرت اور نہایت تیزی کے ساتھ ان کے زمین میں پھیل جانے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کی نقل و حرکت میں سرعت، یا تو اس وجہ سے ہوگی کہ وہ جسمانی اعتبار سینہایت پھرتیلے اور سریع الحرکت ہوں گے یا اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ان اسباب کی وجہ سے، جو دور کی مسافتوں کو قریب اور آسان کردیں گے۔ وہ لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹیں گے اور اس دنیا میں ان پر غالب آجائیں گے، نیز یہ کہ کسی کے اندر ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوگی۔ (واقترب الوعد الحق) ” اور قریب آ لگے گا برحق وعدہ۔ “ یعنی قیامت کا دن، جس کے آنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے اور اس کا وعدہ سچا اور برحق ہے۔ پس اس روز گھبراہٹ، خوف اور دہلا دینے والے زلزلوں سے کفار کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کیونکہ انہیں اپنے جرائم اور گناہوں کا علم ہوگا۔ وہ موت کو پکاریں گے اور اپنی کوتاہیوں پر ندامت اور حسرت کا اظہار کریں گے، کہیں گے : (قد کنا فی غفلٓ من ھذا) ” ہم اس عظیم دن سے غافل تھے “ پس دنیا کے لہو و لعب میں مستغرق رہے حتیٰ کہ فرشتہ اجل آگیا اور ہم قیامت کی گھاٹی میں اتر گئے۔ اگر کوئی حسرت و ندامت کی وجہ سے مرسکتا تو وہ ضرور مرتے۔ وہ کہیں گے (بل کنا ظلمین) ” بلکہ ہم ہی ظالم تھے۔ “ وہ اپنے ظلم اور اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے عدل کا اعتراف کریں گے۔ اس وقت حکم دیا جائے گا کہ انہیں اور ان کے ان معبودوں کو جہنم میں جھونک دو جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے۔ اس لئے فرمایا :
Top