بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
بیشک ایمان والے رستگار ہوگئے
آیت نمبر 1 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی تعریف و تعظیم اور ان کی فلاح وسعادت کا ذکر ہے، نیز اس امر کا بیان ہے کہ وہ فلاح وسعادت کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں اہل ایمان کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان مذکورہ صفات سے متصف کریں۔ پس بندہ مومن ان آیات کی میزان پر اپنے آپ کا وزن کرے، اور یہ معلوم کرے کہ اس کے پاس اور دوسروں کے پاس قلت و کثرت یا اضافے اور کمی کے اعتبار سے کتنا ایمان ہے۔ پس فرمایا (قد افلاح المومنون) یعنی اہل ایمان کامیابی اور سعادت سے بہرہ مند ہوئے اور انہوں نے ہر دو چیز حاصل کرلی جس کا حصول اہل ایمان کا مقصود و مطلوب ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انہوں نے انبیاء ومرسلین کی تصدیق کی جن کی صفات کاملہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ بلا شبہ وہ (فی صلاتھم خشعون) اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ ، ، نماز میں خشوع یہ ہے کہ بندے کا دل اللہ تعالیٰ کو قریب سمجھتے ہوئے اس کے حضور حاضر ہو۔۔۔ اس سے قلب کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، اس کی تمام حرکات ساکن اور غیر اللہ کی طرف اس کا التفات کم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے رب کے سامنے نہایت ادب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، وہ اپنی نماز کے اندر، اول سے لے کر آخر تک جو کچھ کرتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے پورے استحضار کے ساتھ کہتا ہے۔ اس طرح اس کے دل سے تمام و سو سے اور غلط افکار زائل ہوجاتے ہیں۔ یہی نماز کی روح اور یہی اس سے مقصود ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو بندے کے لئے لکھ دیا گیا ہے۔ پس وہ نماز جو خشوع و خضوع اور حضور قلب سے خالی ہو اس پر اگرچہ ثواب ملتا ہے مگر صرف اتنا ملتا ہے جتنا قلب اس کو سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ (والذین ھم عن للغو) اور وہ لغو سے۔ ، ، یہاں (لغو) سے مراد وہ کلام ہے جس میں کوئی بھلائی اور کوئی فائدہ نہ ہو۔ (معرضون) ، ، اعراض کرنے والے ہیں۔ ، ، اپنے آپ کو لغو سے پاک اور برتر رکھنے کے لئے۔ جب کبھی کسی لغو چیز پر سے ان کا گزر ہوتا ہے تو نہایت وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں اور جب یہ لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں تو حرام کاموں سے ان کا اعراض اولی و احری ہے۔ جب بندہ بھلائی کے سوا لغویات میں اپنی زبان پر قابو پا لیتا ہے تو معاملہ اس کے اختیرا میں آجاتا ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے، جب کہ آپ معاذ بن جبل ؓ کو نصیحت فرما رہے تھے۔۔۔ فرمایا، ، کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں آگاہ نہ کروں جس پر ان سب چیزوں کا دارومدار ہے ؟ ، ، حضرت معاذ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا، جی ہاں ! ضرور بتائیں، چناچہ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا، ، اس کو اپنے قابو میں رکھو، ، (1) پس اہل ایمان کی صفات حمیدہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ لغویات اور محرمات سے اپنی زبان کو روکے رکھتے ہیں۔ (والذین ھم للذکوٰۃ فعلون) یعنی مال کی مختلف جنسوں کے مطابق اس کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اپنے آپ کو گندے اخلاق اور برے اعمال سے پاک کرتے ہوئے جن کے ترک کرنے اور جن کے اجتناب ہی سے نفس پاک ہوتے ہیں۔ پس وہ نماز میں خشوع کا اہتمام کر کے اپنے خالق کی اچھے طریقے سے عبادت کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کر کے مخلوق کے ساتھ احسان کا رویہ اپناتے ہیں۔ (و الذین ھم لفروجھم حفظون) ، ، اور وہ (زنا سے) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ، ، اور کامل حفاظت یہ ہے کہ ان تمام امور سے اجتناب کیا جائے جو زنا کی دعوت دیتے ہیں، مثلاً غیر محرم کو دیکھنا اور چھونا وغیرہ۔ پس وہ اپنی شرم گاہوں کی ہر ایک سے حفاظت کرتے ہیں۔ (الا علی ازواجھم، اوما ملکت ایمانھم) ، ، سوائے اپنی بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے۔ ، ، (فانھم غیر ملومین) یعنی اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے پاس جانے میں ان پر کوئی ملامت نہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حلال ٹھہرایا ہے۔ (فمن ابتغٰی وراع ذلک) ، ، پس جو تلاش کرے گا اس کے علاوہ۔ ، ، یعنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ (فاولئیک ھم العدوان) ، ، پس وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ ، ، یعنی جو اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں سے تجاوز کر کے حرام میں پڑگئے اور اللہ تعالیٰ کی محرمات کے ارتکاب کی جسارت کی۔ اس آیت کریمہ عموم تحریم متعہ پر دلالت کرتا ہے کیونکہ نکاح متعہ کے ذریعے بنی ہوئی بیوی حقیقی بیوہ ہے نہ اس کو نکاح میں باقی رکھنا ہی مقصود ہے اور نہ وہ لونڈیاں ہی کے زمرے میں آتی ہے، نیز یہ آیت کریمہ نکاح حلالہ کی تحریم پر بھی دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (اوما ملکت ایمانھم) دلالت کرتا ہے کہ مملوکہ لونڈی کی حلت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ تمام کی تمام صرف اسی کی ملکیت میں ہو۔ اگر وہ صرف اس کے کچھ حصے کا مالک ہے تو یہ لونڈی اس کے لئے حلال نہیں کیونکہ وہ کامل طور پر اس کا مالک نہیں کیونکہ وہ اس کی اور کسی دوسرے شخص کی مشترکہ ملکیت ہے۔ پس جس طرح یہ جائز نہیں کہ کسی آزاد عورت کے دو شوہر ہوں، اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کسی لونڈی کی ملکیت میں دو مالکوں کا اشتراک ہو ( اور وہ اس سے مجامعت کرتے ہوں) (والذین ھم لامنتھم وعھد رعون) یعنی وہ اپنی امانت اور اپنے عہد کی رعایت اور حفاظت کرتے ہیں، ان کو قائم کرنے اور ان کے نفاذ کے بہت حریص ہیں۔۔۔ یہ آیت کریمہ تمام امانتوں کے لئے عام ہے خواہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (انا عرضنا الامانتہ علی السموات والارض والجبال فابین ان یحملنھا وآشفقن منھا وحملھا الانسان) (الاحزاب : 86/33) ، ، ہم نے اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس ذمہ داری کو اٹھا لیا۔ ، ، پس ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر فرض کی ہے، امانت ہے، اس کو پوری طرح سے ادا کرنا اور اس کی حفاظت کرنا بندے کی ذمہ داری ہے، اسی طرح انسانوں کی امانتیں اس کے تحت آتی ہے، مثلاً مال کی امانت اور راز کی امانت وغیرہ۔ پس امانت کی ان دونوں اقسام کی حفاظت اور ان کو پوری طرح ادا کرنا فرض ہے۔ فرمایا : (ان اللہ یا مروکم ان تعودو الامنت الی اھلھا) (النساء : 58/4) ، ، بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو ان کی امانتیں واپس کردیا کرو۔ ، ، اسی طرح عہد کا پورا کرنا بھی فرض ہے اور یہ اس عہد کو شامل ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے اور جو ان کے اور بندوں کے درمیان ہے اور اس سے مراد وہ التزامات اور معاہدے ہیں جو بندہ کسی سے کرتا ہے، ان کی حفاظت کرنا اور ان کو پورا کرنا اس پر واجب ہے، ان میں کوتاہی کرنا یا ان کو جان بوجھ کر چھوڑ دینا حرام ہے۔ (والذین ھم علی صلوٰتھم یحافظون) یعنی وہ نمازوں کو ہمیشہ ان کے اوقات میں، ان کی حدود، شرائط اور ارکان کی کامل رعایت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے نماز میں ان کے خشوع اور نماز کی حفاظت، دونوں باتوں کی بنا پر ان کی مدح و ستائش کی ہے کیونکہ ان کا معاملہ ان دونوں امور کے بغیر تکمیل نہیں پاتا۔ پس جو شخص نماز پر مداومت تو کرتا ہے مگر بغیر خشوع کے نماز پڑھتا ہے، یا وہ کامل خشوع کے ساتھ تو نماز پڑھتا ہے مگر اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ ناقص اور مذموم ہے۔ (اولئک) یہی لوگ جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں۔ (ھم الورثون۔ الذین یرثون الفردوس) ۔ فردوس کے وارث ہوں گے، ، جو جنت کا بلند ترین، بہتر اور افضل طبقہ ہے کیونکہ وہ ایسی صفات سے متصف ہوئے ہیں جو بھلائی کی صفات میں سب سے اعلیٰ صفات ہیں۔۔۔ یا اس سے مراد تمام جنت ہے تاکہ عام مومن اپنے اپنے درجات و مراتب اور اپنے اپنے حال کے مطابق اس میں داخل ہوجائیں۔ (ھم فھا خلدون) ، ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ، ، وہ وہاں سے کبھی کوچ کریں گے نہ وہاں سے منتقل ہونا چاہیں گے کیونکہ جنت فردوس کامل اور افضل ترین نعمتوں پر مشتمل ہے وہاں کوئی تکدر ہوگا نہ پریشانی۔
Top