Tafseer-e-Saadi - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو عمل تم کرتے ہو میں ان سے واقف ہوں
آیت (51) (یا ایھا الرسل کلو من الطیبت واعملوا صالحا انی بما تعملون علیم ) ” اے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو ‘ بیشک میں تمہارے عملوں کو خوب جانتا ہوں۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے انبیاء و رسل کو حکم ہے کہ وہ پاک اور حلال رزق کھائیں اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں یہ اعمال صالحہ قلب و بدن اور دنیا و آخرت کی اصلاح کرتے ہیں ‘ نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو خبر دار کیا ہے کہ وہ ان کے اعمال سے آگاہ ہے ان کا ہر عمل اور ان کی ہر کوشش اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی کامل ترین اور افضل ترین جزا دے گا۔ پس یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ تمام انبیاء ومرسلین کھانے پینے کی تمام پاک چیزوں کی اباحت اور ناپاک چیزوں کی تحریم پر متفق ہیں نیز وہ تمام اعمال صالحہ پر بھی متفق ہیں۔ اگرچہ بعض مامورات کی جنس میں تنوع اور بعض شرائع میں اختلاف ہے تاہم ہر شریعت اعمال صالحہ پر مشتمل ہے۔ البتہ زمانے کے تفاوت کی بنا پر متفاوت ہیں ‘ اس لیے وہ تمام اعمال صالحہ جو ہر زمانے میں صلاح کے حامل تھے ان پر تمام انبیاء اور شریعتیں متفق ہیں مثلاً توحید الہٰی ‘ دین میں اخلاص ‘ محبت الہٰی ‘ خوف الٰہی اللہ پر امید ‘ نیکی ‘ صدق ‘ ایفائے عہد ‘ صلہ رحمی ‘ والدین کے ساتھ حسن لوک ‘ کمزوروں ‘ مسکینوں اور یتیموں کی دستگیری اور تمام مخلوق کے ساتھ مہربانی کا رویہ جیسے احکام۔ اس لیے تمام اہل علم ‘ کتب سابقہ اور عقل سلیم کے مالک محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت پر ‘ آپ کے مامورات اور منہیات کی جنس کے ذریعے سے استدلال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہرقل نے استدلال کیا تھا کین کہ اگر آپ ﷺ ان امور کا حکم دیتے ہیں جن کا حکم آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائے کرام دیتے رہے ہیں اور آپ ؓ ان چیزوں سے روکتے ہیں جن سے گزشتہ انبیائے کرا روکتے رہے ہیں تو یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بھی انبیا ہے کرام کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک گذاب برائی کا حکم دے گا اور بھلائی سے روکے گا۔ بنا بریں انبیائے کرام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وان ھذا امتکم امۃ واحدۃ) اے رسولوں کے گروہ تمہاری جماعت ایک دین پر متفق ہے اور تمہارا رب بھی ایک ہے ( فاتقون) ” پس تم مجھ سے ڈرو “ میرے احکام کی تعمیل کر کے اور میرے زجرو توبیخ کے موجب امور سے اجتناب کر کے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو انہیں امور کا حکم دیا جن کا حکم اپنے رسولوں کو دیا کیونکہ اہل ایمان انبیاء و رسل کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں کے راستے پر گامزن ہیں ‘ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (البقرۃ (972/2” اے اہل ایمان ! جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں ‘ انہیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ “ پس انبیائے کرام سے نسبت رکھنے والوں اور دیگر لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کریں۔ بایں ہمہ جھٹلانے والے ظالم ‘ نافرمان ہی رہے اس لیے فرمایا : ( فتقطعو) ” پس کاٹ دیا۔ “ یعنی انبیاء و رسل کی اتباع کا دعویٰ کرنے والوں نے ( امرھم) یعنی اپنے دین کو ( بینھم زبرا) ” آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے “ ( کل حزب بما لدیھم) ” ہر گر وہ اس پر جو اس کے پاس ہے۔ “ یعنی ہر گر وہ اور فرقے کے پاس جو علم اور دین ہے (فرحون) وہ اسی پر خوش ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دیگر لوگ حق پر نہیں ہیں حالانکہ ان میں سے حق پر صرف وہی لوگ ہیں جو انبیاء کے راستے پر گامزن ہیں ‘ پاک چیزیں کھاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں۔ ان کے سوا دیگر لوگ تو وہ باطل کی راہوں میں سرگرداں ہیں۔ (فذر ھم فی غمرتھم) ” پس چھوڑ دیجیے آپ ان کو ان کی غفلت ہی میں۔ ” یعنی انہیں حق کے بارے میں ان کی جہالت اور ان کے دعوؤں میں ‘ کہ وہ حق پر ہیں ‘ غلطاں چھوڑ دیجیے ( حتی حین) یعنی اس وقت تک جب تک کہ ان پر غذاب نازل نہیں ہوجاتا کیونکہ ان کو کوئی وعظ و نصیحت اور زجرو توبیخ فائدہ نہیں دے سکتی۔ یہ چیزیں انہیں فائدہ دے بھی کیسے سکتی ہیں جبکہ وہ اس زعم میں مبتلا ہوں کہ وہ حق پر ہیں اور اپنے اس مسلک کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کے متمنی ہوں۔ (ایحسبون انما نمدھم بہ من مال و بنین نسارع لھم فی الخیرت) یعنی کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد میں ہماری طرف سے اضافہ ‘ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ بھلائی اور سعادت سے بہرہ مند ہیں اور دنیا اور آخرت کی بھلائی انہیں کے لیے ہے ؟ یہ ان کا اپنا زعم باطل ہے حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے۔ ( بل لا یشعرون) ” بلکہ وہ نہیں سمجھتے۔ “ کہ ہم ان کو ڈھیل اور مہلت دیے جا رہے ہیں اور ان کو نعمتوں سے نواز رہے ہیں وہ اس لیے کہ تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کرلیں اور آخرت میں اپنے عذاب کو بڑھالیں اور دنیا میں میں ان کو جو نعمتیں عطا ہوئیں ہیں انہیں سے مزے لیتے رہیں۔ (حتی اذا فرحو بما اوتو احذ نھم بغتۃ) (الانعام : (44/6” حتیٰ کہ جو کچھ ان کو عطا کیا گیا تھا ‘ اس سے بہت خوش ہوگئے ‘ تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا “
Top