Tafseer-e-Saadi - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
اور (خدا) بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا
آیت 61 سے 62 اللہ تعالیٰ نے اس سورة کریمہ میں (تبارک) کا لفظ تین مرتبہ استعمال فرمایا ہے کیونکہ، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے، یہ لفط باری تعالیٰ کی عظمت، اس کے اوصاف کی کثرت اور اس کے احسان اور بھلائی کی وسعت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ سورة مبارکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کی لامحدود قوت و تسلط، اس کی مشیت کے نفوذ، اس کے علم وقدرت کے عموم، امری و جزائی احکام پر اس کے احاطہء اختیار اور اس کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی بےپایاں رحمت، اس کے وسیع جودو کرم اور اس کے دینی و دنیاوی احسانات پر دلالت کرتی ہیں یہ تمام اس وصف حسن کے تکرار کا تقاضا کرتے ہیں۔ چناچہ فرمایا : (تبرک الذی جعل فی السماء بروجا) ” اور بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمانوں میں برج بنائے۔ “ یہ عام ستارے ہیں یا سورج اور چاند کی منازل ہیں جہاں وہ منزل بمنزل چلتے رہتے ہیں اور وہ منازل ایسی ہیں جیسے شہروں کی حفاظت کے لئے برج اور قلعے ہوتے ہیں۔ اس طرح ستارے ان برجوں کی مانند ہوتے ہیں جو حفاظت کیلئے بنائے جاتے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ ستارے شیاطین کے لئے شہاب ثاقب ہیں۔ (وجعل فیھا سرجا) ” اور اس میں (آفتاب کو) چراغ بنایا۔ “ یعنی جس میں روشنی اور حرارت ہو اس سے مراد سورج ہے (وقمرا منیرا) ” اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔ “ جس میں روشنی ہو مگر حرارت نہ ہو (وہ چاند ہے) یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت اور اس کے بیشمار احسانات کی دلیل ہے، چونکہ اس میں نمایاں تخلیق، انتہائی منظم تدبیر اور عظیم جمال ہے اس لئے یہ اپنے خالق کے تمام اوصاف میں اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے اور چونکہ ان میں مخلوق کے لئے مصالح اور منافع ہیں اس لئے یہ اس کی بھلائیوں کی کثرت پر دلالت کرتی ہے۔ (وھو الذی جعل الیل والنھار خلفۃ) ” اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔ “ یعنی دن رات میں سے ایک جاتا ہے تو دوسرا اس کا پیچھا کرتا ہے یہ سلسلہ یونہی ہمیشہ چلتا رہے گا وہ کبھی اکٹھے ہوں گے نہ کبھی مرتفع ہوں گے۔ (لمن اراد ان یذکر او اراد شکورا) ” اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہیے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے۔ “ یہ شب و روز اس شخص کے لئے نصیحت ہیں جو ان سے نصیحت حاصل کرنا، عبرت پکڑنا، ان کے ذریعے سے بہت سے مطالب الٰہیہ پر استدلال کرنا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہتاے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کا شکر کرنا چاہتا ہے تو دن یا رات میں اس کے لئے درد ہے۔ اگر کسی ایک وقت اس سے اس کا درد فوت ہوجائے تو وہ دوسرے وقت میں اس کی تلافی کرسکتا ہے۔ نیز دل بھی شب و روز کی مختلف گھڑیوں میں، اپنی کیفیات کے اعتبار سے تبدیلیوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں انہیں نشاط اور کسل مندی، ذکر اور غفلت، تنگی اور کشادگی اقبال اور اعراض کی کیفیات پیش آتی رہتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے شب و روز کو اس طرح تخلیق فرمایا ہے کہ وہ تسلسل سے باری باری وارد ہوتے رہتی ہیں تاکہ اگر ایک وقت فوت ہوجائے تو دوسرے وقت میں نشاط، ذکر اور شکر کی کیفیت حاصل ہوجائے نیز شب و روز کے تکرار میں عبادات کے اوقات کا تکرار ہے۔ جب بھی عبادات کا وقت دوبارہ آئے گا تو بندے میں ایک نیا ارادہ پیدا ہوگا جو گزشتہ وقت میں اس کی کسل مندی کا شکار ہوگیا تھا۔ اس طرح اس کے ذکر وشکر میں اضافہ ہوگا نیکیوں کا وظیفہ شجرۂ ایمان کے لئے آب پاشی کی حیثیت رکھتا ہے جس سے ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے اگر یہ نہ ہو تو ایمان کا پودا مرجھا کر سوکھ جاتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی خوبصورت پیرائے میں کامل ترین محمد ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان بیشمار بھلائیوں اور احسانات کا ذکر کیا ہے جن سے اس نے اپنے نیک بندوں کو نوازا اور انہیں نیک اعمال کی توفیق سے سرفراز کیا جو انہیں جنت میں بلند ترین مقامات پر فائز کریں گے، چناچہ فرمایا :
Top