Tafseer-e-Saadi - Ash-Shu'araa : 105
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ نُوْحِ : نوح کی قوم الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
تو قوم نوح نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
آیت 105 سے 122 اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنے رسول نوح (علیہ السلام) جو جھٹلایا، نیز نوح (علیہ السلام) نے ان کے شرک کو رد کیا اور انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کے انجام سے آگاہ فرمایا، چناچہ فرمایا : (کذبت قوم نوح المرسلین) ” نوح (علیہ السلام) کی قوم نے تمام رسولوں کو جھٹلایا۔ “ گویا حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کو تمام رسولوں کی تکذیب قرار دیا، اس لئے کہ تمام انبیاء ومرسلین کی دعوت ایک اور ان کی خبر ایک ہے اس لئے ان میں سے کسی ایک کی تکذیب اس دعوت حق کی تکذیب ہے جسے تمام انبیاء ومرسلین لے کر آئے ہیں۔ (اذ قال لھم اخوھم نوح) ” جب ان کے (نسبی) بھائی نوح نے ان سے کہا “ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ہمیشہ اسی قوم کے نسب سے پیدا کیا جس میں ان کو مبعوث کیا گیا تاکہ وہ اطاعت کرتے ہوئے انقباض اور کراہت محسوس نہ کریں کیونکہ وہ اس کی نسبی حقیقت سے واقف ہیں اور ان کو اس کے نسب کی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ نوح (علیہ السلام) نے ان کو انتہائی نرمی سے خطاب کیا، جیسا کہ یہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کا طریقہ تھا۔ (الا تتقون) ” کیا تم (اللہ تعالیٰ سے) نہیں ڈرتے “ کہ تم بتوں کی عبادت کو چھوڑ دیتے اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی عبادت کو خالص کرتے ؟ (انی لکم رسول امین) ” بیشک میں تو تمہارا امانت دار رسول ہوں۔ “ حضرت نوح (علیہ السلام) کا خاص طور پر ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا جانا اس امر کو موجب ہے کہ وہ، جو چیز ان کی طرف بھیجی گئی ہے اسے قبول کریں، اس پر ایمان لائیں اور اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے انہیں اس معزز رسول کے ساتھ خاص فرمایا اور آپ کا امین ہونا اس امر اکا تقاضا کرتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ گھڑیں اور اس کی وحی میں کمی بیشی نہ کریں اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ لوگ آپ کی خبر کی تصدیق اور آپ کے حکم کی اطاعت کریں۔ (فاتقوا اللہ واطیعون) ” پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ “ یعنی جس چیز کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں اور جس چیز سے میں تمہیں روکتا ہوں اس بارے میں میری اطاعت کرو۔ یہی وہ چیز ہے جو ان کی طرف آپ کے رسول امین کے طور پر مبعوث ہونے پر مترتب ہوتی ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے (فاء) کے ساتھ ذکر فرمایا جو سبب پر دلالت کرتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے سب موجب کا ذکر کیا پھر نفی مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (وما اسئلکم علیہ من اجر) ” اور میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا “ جس سے تمہیں بھاری تاوان کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہو۔ (ان اجری الا علی رب العلمین) ” میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔ “ میں اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب اور ثواب جزیل کی امید رکھتا ہوں۔ رہا تمہارا معاملہ تو میری انتہائی تمنا اور ارادہ صرف تمہاری خیر خواہی اور تمہارا راہ راست پر گامزن ہوتا ہے۔ (فاتقوا اللہ واطیعون) یہ آیت مکرر ذکر کی گئی ہے کیونکہ نوح (علیہ السلام) ایک نہایت طویل عرصہ تک اپنی قوم کو بار بار دعوت توحید دیتے رہے، وہ بتکرار یہ بات کہتے رہے ” اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو “ فرمایا : (فلبث فیھم الف سنۃ الا خمسین عاما) (العنکبوت : 29/14) ” پس وہ (نوح علیہ السلام) پچاس کم ایک ہزار سال اپنی قوم میں رہے۔ “ نوح (علیہ السلام) نے کہا : (رب انی دعوت قومی لیلا ونھارا۔ فلم یزدھم دعاءی الا فرارا) (نوح : 81/5، 2) ” اے میرے رب ! میں اپن قوم کو رات دن توحید کی طرف بلاتا رہا مگر وہ میرے بلانے پر اور زیادہ دور بھاگھنے لگے۔ “ انہوں نے نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکراتے اور ایسی چیز کی بنا پر آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا جس کی بنا پر مخالفت کرنا درست نہ تھا : (انومن لک واتبعک الارذلون) یعنی ہم تیری اتباع کیسے کرسکتے ہیں جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تیری اتباع کرنے والے معاشرے میں سبب سے گھٹیا، رذیل اور گرے پڑے لوگ ہیں۔ ان کی ان باتوں سے ان کا حق سے تکبر کرنا اور حقائق سے جاہل رہنا پہنچانا جاسکتا ہے، کیونکہ اگر ان کا مقصد تلاش حق ہوتا اور انہیں آپ کی دعوت میں کوئی شک و شبہ ہوتا تو کہتے کہ آپ جو چیز لے کر آئے ہیں اس تک پہنچانے والے طرق کے ذریعے سے ہمیں اس کے صحیح ہونے کے بارے میں وضاحت فرما دیجئے ! اگر وہ غور کرتے جیسا کہ غور کرنے کا حق ہے تو انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے متبعین ہی بہترین لوگ اور انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں، وہ بہترین عقل اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہیں۔ سب سے رذیل وہ ہے جس سے خصوصیات عقل سلب کرلی گئی ہوں اور وہ پتھروں کی عبادت کو مستحسن سمجھتا ہو اور وہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور حاجتوں میں ان کو پکارنے پر راضی ہو اور اس نے کامل ترین انسانوں یعنی انبیاء و رسل کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہو۔ جب دو جھگڑے والوں میں سے ایک کلام باطل کے ساتھ بات کر رہا ہو تو محض اس کے کلام ہی سے اس کے فساد کا پتہ چل جائے گا، اس سے قطع نظر کہ اس کے مدمقابل دوسرے آدمی کے دعویٰ کی صحت پر غور کیا جائے۔ جب ہم حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں سنتے ہیں کہ انہوں نے نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو رد کرتے ہوئے کہا : (انومن لک واتبعک الارذلون) تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ اور خطا کار ہیں اگرچہ ہم حضرت نوح (علیہ السلام) کے معجزات اور ان کی عظیم دعوت کا مشاہدہ نہ بھی کریں جو کہ آپ کی سچائی پر پختہ یقین اور جس چیز کو لے کر آپ اٹھے ہیں اس کے صحیح ہونے کا فائدہ دیتے ہیں کیونکہ ان منکرین نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو رد کرنے کی بنیاد ایسی چیز پر رکھی ہے جس کا فساد سب پر واضح ہے۔ چناچہ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : (وما علمی بما کانو یعملون۔ ان حسابھم الا علی ربی لو تشعرون) ” اور مجھے کیا خبر وہ پہلے کیا کرتے رہے ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے اگر تم شعور رکھتے ہو۔ “ یعنی ان کے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور میرا فرض اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دینا ہے، تم ان کا معاملہ چھوڑو۔ اگر میرے دعوت حق ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کردو۔ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ (وما انا بطارد المومنین) ” اور میں مومنوں کا نکال دینے والا نہیں ہوں۔ “ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ا۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔ تکبر اور جرب سے نوح (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اہل ایمان کو اپنے پاس سے دھتکار دیں تب وہ ایمان لائیں گے تو نوح (علیہ السلام) نے جواب دیا : (وما انا بطارد المومنین) کیونکہ یہ اہانت اور دھتکارے جانے کے مستحق نہیں بلکہ یہ تو قولی و فعلی اکرام و تکریم کے مستحق ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (واذا جاءک الذی یومنون بایتنا فقل سلم علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ) (الانعام : 6/54) ” اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہہ دیجئے تم پر سلامتی ہو۔ اللہ نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کرلیا ہے۔ “ (ان انا الا نذیر مبین) ” میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔ “ یعنی میں صرف ڈرانے والا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام پہنچا دینے والا ہوں اور میں بندوں کی خیر خواہی کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔ میرے پاس کوئی اختیار نہیں، معاملے کا تمام اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہء قدرت میں ہے۔ نوح (علیہ السلام) دن رات، کھلے چھپے، انہیں دعوت دیتے رہے مگر وہ دور ہی دور بھاگتے رہے اور کہنے لگے : (لئن لم تنتہ ینوح) اے نوح ! اگر تو ہمیں اللہ کی طرف دعوت دینے سے باز نہ آیا (لتکونن من المرجومین) ہم تجھے پتھر مار مار کر بری طرح قتل کریں گے، جس طرح کتے کو قتل کیا جاتا ہے۔۔۔ ان کا برا ہو۔۔۔ انہوں نے کتنا برا تقابل کیا ہے۔ وہ ایک خیر خواہ، امین شخص کا تقابل، جو ان کے لئے خود ان سے زیادہ شفیق ہے، بدترین تقابل کر رہے ہیں۔ جب ان کے جرم کی انتہا ہوگئی اور ان کا کفر بہت زیادہ ہوگیا تو ان کے نبی نے ان کے لئے بدعا کی جس نے ان کو گھیر لیا، چناچہ نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا : (رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا) (نوح : 81/26) ” اے میرے رب کسی کافر کو زمین پر بسا نہ رہنے دے۔ “ اور یہاں فرمایا : (رب ان قومی کذبون۔ فافتح بینی وبینھم فتحا) ” میرے رب ! میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا پس تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کردے۔ “ یعنی ہم میں سے جو زیادتی کا مرتکب ہے اسے ہلاک کردے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ ظلم اور زیادتی کے مرتکب ہیں، اس لئے عرض کیا (ونجنی ومن معنی من المومنین) ” مجھے اور ان مومنین کو جو میرے ساتھ ہیں ‘ نجات دے۔ “ (فانجینۃ ومن معہ فی الفلک) ” پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے بچالیا۔ “ (المشحون) جو مخلوق اور حیوانات سے بھری ہوئی تھی۔ (ثم اغرقنا بعد) ” پھر اس کے بعد غرق کردیا۔ “ یعنی نوح (علیہ السلام) اور ان اہل یمان کے بعد جو آپ کے ساتھ تھے (البقین) باقی تمام قوم کو غرق کردیا۔ (ان فی ذلک) ” بیشک اس میں۔ “ یعنی نوح (علیہ السلام) اور ان کی متبعین کی نجات اور جھٹلانے والوں کی ہلاکت میں (لایۃ) ” ایک نشانی ہے “ جو ہمارے رسولوں کی صداقت اور ان کی دعوت کے حق ہونے اور ان کی تکذیب کرنے والے دشمنوں کے موقف کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ (وان ربک لھو العزیز) ” بیشک تمہارا تب تو غالب ہے۔ “ جو اپنی قوت اور غلبے کی بنا پر اپنے دشمنوں پر غالب ہے اور اس نے ان کو طوفان کے ذریعے سے غرق کردیا۔ (الرحیم) ” مہربان ہے۔ “ یعنی وہ اپنے اولیا پر بہت مہربان ہے اس نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ اہل ایمان کی نجات دی۔
Top