Tafseer-e-Saadi - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور یہ (قرآن خدائے) پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے
آیت 192 سے 203 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کرام کا ان کی قوموں کے ساتھ قصہ بیان فرمایا اور انبیاء کرام نے کیسے ان کو توحید کی دعوت دی اور کیسے انہوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرایا اور پھر کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا اور ان کا انجام برا ہوا۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس رسول کریم، عظمت شان کے حامل نبی مصطفیٰ ﷺ اور اس کتاب کا ذکر فرمایا جس کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے جس میں عقل مندوں کے لئے ہدایت ہے، چناچہ فرمایا : (وانہ لتنزلیل رب العلمین) ” اور یہ (قرآن) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔ “ پس وہ ہستی جس نے اس عظی کتاب کو نازل فرمایا، زمین و آسمان کو پیدا کرنے والی اور تمام عالم علوی اور سفلی کی مربی ہے۔ جس طرح اس نے بندوں کی ان جسمانی اور دنیاوی مصالح میں تربیت کی، اسی طرح اس نے ان کے دین و دنیا کے مصالح میں بھی راہنمائی فرما کر ان کی تربیت کی۔ سب سے عظیم چیز جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تربیت کی ہے وہ اس کتاب کریم قرآن مجید کا نازل فرمانا ہے جو بےانتہا بھلائی اور بےپایاں نیکی پر مشتمل ہے۔ یہ دین و دنیا کے مصالح اور اخلاق فاضلہ کا متضمن ہے جن سے دوسری کتابیں تہی دامن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (وانہ لتنزیل رب العلمین) میں اس کتاب کی تعظیم اور اس کے مہتم بالشان ہونے پر دلیل ہے نیز اس امر کی دلیل ہے کہ یہ عظیم کتاب کسی اور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور اس کے نازل کرنے کا مقصد تمہارا فائدہ اور تمہاری ہدایت ہے۔ (نزل بہ الروح الامین) ” اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔ “ اس سے مراد جبرئیل (علیہ السلام) جو فرشتوں میں سب سے افضل اور سب سے طاقتور ہیں (الامین) ” وہ امانت دار ہیں، وہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے۔ (علی قلبک) ” آپ کے دل پر۔ “ یعنی اے محمد ﷺ ! جبریل اسے لے کر آپ کے دل پر نازل ہوا (لتکون من المنذرین) تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو رشدو ہدایت کی راہ دکھائیں اور ان کو گمراہی کا راستہ اختیار کرنے سے ڈرائیں۔ (بلسان عربی) ” صاف صاف عربی زبان میں “ اور عربی زبان سب سے افضل زبان ہے اور اسے ان لوگوں کی زبان میں نازل کیا گیا ہے جن کی طرف اسے بھیجا گیا ہے اور ان کو دعوت دینے میں یہی زبان استعمال ہوئی ہے، صاف اور واضح زبان۔ آپ غور کیجئے کہ کیسے یہ تمام فضائل فاخرہ اس عظیم کتاب میں جمع ہوگئے ہیں یہ کتاب سب سے افضل کتاب ہے، اسے سب سے افضل فرشتہ لے کر نازل ہوا، اس ہستی پر نازل ہوئی جو مخلوق میں سب سے افضل ہے اور جسم میں سب سے افضل حصے یعنی آپ کے دل پر نازل کی، سب سے افضل امت پر نازل کی گئی اور سب سے افضل، سب سے فصیح اور سب سے وسیع زبان میں نازل کی گئی اور وہ ہے واضح عربی زبان۔ (وانہ لفی زبر الاولین) ” اور اس کی خبر پہلی کتابوں میں ہے۔ “ یعنی پہلی کتابوں میں اس کی خوشخبری دی گئی ہے اور پہلی کتابوں نے اس کی تصدیق کی ہے۔ چونکہ ان کتابوں نے اس کے بارے میں جو خبر دی تھی یہ اس کے مطابق نازل ہوئی ہے اس لئے یہ ان کی تصدیق ہے۔ بلکہ یہ کتاب حق کے ساتھ آئی ہے اور تمام رسولوں کی تصدیق کرتی ہے۔ (اولم یکن لھم ایۃ) ” کیا ان کیلئے یہ دلیل نہیں “ اس کتاب کی صحت اور اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر (ان یعلمہ عموا بنی اسرائیل (” کہ اسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں “ جن پر علم کی انتہا ہے اور وہ سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور انصفا کرنے والے لوگ ہیں۔ کیونکہ اگر کسی عاملے میں اشتباہ واقع ہوجائے تو باصلاحیت اور اہل درایت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور ان کا قول دوسروں پر حجت ہوتا ہے۔ جیسے ان جادوگروں نے، جو جادو کے علم میں ماہر تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کی صداقت کو پہنچان لیا۔ اس کے بعد جاہل اور لاعلم لوگوں کے قول کو کوئی اہمیت ہیں دی جاتی۔ (ولو نزلنہ علی بعض الاعجمین) ” اور اگر ہم اس کو کسی غیر اہل زبان پر اتارتے۔ “ جو ان کی زبان کو سمجھتے ہوں نہ مناسب طریقے سے تعبیر کلام کی قدرت رکھتے ہوں۔ (فقراہ علیھم ما کانوا بہ مومنین) ” تو وہ ان (قریش) کو پڑھ کر سناتا تب بھی وہ اس پر ایمان نہ لاتے۔ “ وہ کہتے کہ وہ جو کہتا ہے ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور ہم نہیں جانتے ہیں کہ وہ کس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس لئے ان کو اپنے رب کی حمدو ثنا کرنی چاہیے کہ یہ کتاب ایسے شخص پر نازل ہوئی ہے جو مخلوق میں سب سے زیادہ فصیح اللسان اور عبارات واضحہ کے ذریعے سے ان کتاب کے مقاصد کی تعبیر کرنے کی سب سے زیادہ قدرت رکھنے والا اور ان کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ پس ان کو چاہیے کہ وہ اس کی تصدیق کرنے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اسے قبول کرنے میں جلدی کریں مگر کسی شبہ کے بغیر ان کا اس کتاب کو جھٹلانا، کفر وعناد کے سوا کچھ نہیں اور یہ ایک معاملہ ہے جو انبیاء کی تکذیب کرنے والیامتوں میں متواتر چلا آرہا ہے، اس لئے فرمایا : (کذلک سلکنہ فی قلوب المجرمین) ہم نے مجرموں کے دلوں میں اس (تکذیب) کو اسی طرح داخل کردیا ہے جیسے سوئی کے ناے میں دھاگہ داخلہ ہوتا ہے۔ تکذیب ان کے دلوں میں رچ بس کر ان کا وصف بن گئی ہے۔ یہ ان کے ظلم اور ان کے جرائم کے سبب سے ہے۔ اس لئے (لایومنون بہ حتی یروا العذاب الالیم) ” یہ لوگ اس پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ( اپنی تکذیب کی پاداش میں) درد ناک عذاب نہیں دیکھ لیتے۔ “ (فیاتیھم بغتۃ وھم لا یشعرون) یہ عذاب ان کا اچانک اور ان کی غفلت کی حالت میں آ لے گا، انہیں اس کا احساس تک ہوگا نہ اس کے نازل ہونے کا شعور ہوگا تاکہ اس عذاب کے ذریعے سے ان کو پوری طرح سزاد دی جائے۔ (فیقولو) اس وقت یہ کہیں گے (ھل نحن منظرون) ” کیا ہمیں مہلت ملے گی ؟ “ یعنی وہ درخواست کریں گے کہ ان کو مہلت اور ڈھیل دی جائے اور حال یہ ہے کہ مہلت کا وقت گزر گیا اور ان پر عذاب نازل ہوگیا جسے ان پر سے کبھی نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ کبھی ایک گھڑی کے لے منقطع ہوگا۔
Top