Tafseer-e-Saadi - Ash-Shu'araa : 221
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ
هَلْ : کیا اُنَبِّئُكُمْ : میں تمہیں بتاؤں عَلٰي مَنْ : کسی پر تَنَزَّلُ : اترتے ہیں الشَّيٰطِيْنُ : شیطان (جمع)
(اچھا) میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں ؟
آیت 221 سے 227 یہ اہل تکذیب میں سے ان لوگوں کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ محمد ﷺ پر شیطان نازل ہوتا ہے نیز ان لوگوں کی بات کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ محمد ﷺ شاعر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : (ھل انبئکم) ” کیا تمہیں (حقیقی خبر سے) آگاہ نہ کروں ؟ “ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں، یعنی میں تمہیں ان لوگوں کی صفات سے آگاہ کرتا ہوں جن پر شیاطین نازل ہوا کرتے ہیں۔ (تنزل علی کل افاک) ” ہر کذاب ](قول باطل کے قائل اور افترا پرداز) پر شیطان نازل ہوتے ہیں۔ “ (اثیم) یعنی گناہوں کا ارتکاب کرنے والا اور بہت نافرمان۔۔۔ اس قسم کے لوگوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور شیاطین انہی لوگوں کے احوال سے مناسبت رکھتے ہیں۔ (یلقون السمع) ” جو سنی ہوئی بات لاڈالتے ہیں۔ “ یعنی آسمان سے سن گن لے کر چرائی ہوئی باتیں ان کے کانوں میں ڈالتے ہیں (واکثرھم کذبون) ” اور وہ اکثر جھوٹے ہیں۔ “ یعنی جو باتیں، ان کے کانوں میں ڈالتے ہیں ان میں سے اکثر باتیں جھوٹی ہیں۔ اگر ایک بات سچی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ایک سو جھوٹی باتیں شامل کردیتے ہیں۔ تب حق باطل کیساتھ خلط ملط ہوجاتا ہے اور حق اپنی قلت اور عدم علم کی بنا پر کمزور ہوجاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے اوصاف ہیں جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور یہ شیطانی الہام کا وصف ہے۔۔۔ رہے رسول مصطفیٰ محمد ﷺ تو آپ کا حال ان احوال سے بہت زیاہ مختفل ہے کیونکہ آپ صادق، امین، نیکو کار، رشدو ہدایت پر کاربند ہیں۔ آپ طہارت قلب، صدق مقال، محرمات سے پاک افعال کے جامع ہیں۔ آپ کی طرف جو اللہ کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے، نزول کے وقت اس کی حفاظت کی جاتی ہے یہ وحی صدق عظیم پر مشتمل ہوتی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ اے عقل مند لوگو ! کیا رسول اللہ ﷺ کا رشدو ہدایت پر مبنی طریقہ اور شیاطین کی افترا پردازی برابر ہوسکتے ہیں ؟ یہ دونوں متضاد اور صاف صرف اسی شخص پر مشتبہ ہوسکتے ہیں جو پاگل ہو اور چیزوں کے درمیان فرق اور امتیاز کرنے سے عاری ہو۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ ن آنحضرت ﷺ کو ان نزول شیاطین سے منزہ قرار دیا تو آپ کو شعر سے بھی مبرا قرار دیتے ہوئے فرمایا : (والشعراء) یعنی کیا میں تمہیں شعرء کے احوال اور ان کے اوصاف ثابتہ کے بارے میں بھی آگاہ نہ کروں ؟ (یتبعھم الغاون) ” ان کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جو بھٹکے ہوئے “ راہ ہدایت سے اور گمراہی اور ہلاکت کے راستے پر گامزن ہیں۔ پس شعراء خود گمراہی ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ نظریاتی طور پر بھٹکا ہوا گمراہی اور مفسد شخص ان کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہے۔ (الم تر) کیا آپ نے ان گمراہی اور شدت ضلالت کو نہیں دیکھا (انھم فی کل واد) ” کہ بیشک وہ (شاعری) ہر وادی میں “ (یھیمون) ” آوارہ و سرگشتہ پھرتے ہیں۔ “ کبھی مدح میں اشعار کہت ہیں کبی مذمت میں، کبھی صدق کے بارے میں اور کبھی کذب کے بارے میں، کبھی غزل کہتے ہیں اور کبھی تمسخر اڑاتے ہیں، کبھی تکبر کا اظہار کرتے ہیں اور کبھی حزن و غم کا۔ ان کو کہیں قرار ملتا ہے نہ کسی حال میں ثبات حاصل ہوتا ہے۔ (وانھم یقولون مالا یفعلون) ” اور بیشک وہ ایسی بات کہتے وہ ہیں جو وہ بذات خود نہیں کرتے۔ “ یہ شعراء کا وصف ہے کہ ان کے قول و فعل میں سخت تضاد ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی شاعر کو رقت انگیز غزل کہتے ہوئے سنیں گے تو آپ کہہ اٹھیں گے کہ یہ دنیا میں سب سیزیادہ عشق کا مارا ہوا شخص ہے حالانکہ اس کا دل عشق سے خالی ہوگا۔ اگر آپ اس کو کسی مدح یا مذمت کرتے ہوئے سنیں تو کہیں گے کہ یہ سچ ہے حالانکہ وہ جھوٹ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ بعض افعال پر اپنی ستائش آپ کرتا ہے حالانکہ وہ ان افعال کے قریب سے نہیں گزرا ہوتا، وہ افعال کے ترک کرنے پر اپن تعریف کرتا ہے حالانکہ اس نے اس فعل کو کبھی ترک نہیں کیا ہوتا، وہ اپنی سخاوت کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے حالانکہ اس کا اس کو چے سے کبھی گزر ہی نہی ہوا ہوتا۔ وہ اپنی شجاعت کے تذکرے کرتا ہے جس کی بنا پر اس نے بڑے بڑے شہسواروں کو زیر لیا ہوتا ہے حالانکہ آپ اسے دیکھیں گے کہ وہ انتہائی بزدل ہے۔۔۔ یہ ہیں شعراء کے اوصاف۔ اب آپ غور کیجئے کہ آیا مرقومہ بالا احوال رسول کریم محمد ﷺ جیسی ہدایت یافتہ اور پاکیزہ ہستی کے احوالے سے مطابقت رکھتے ہیں، جن کی پیروی ہر وہ شخص کرتا ہے جو صاحب رشدو ہدایت ہے۔ آپ راہ راست پر نہایت استقامات سے گامزن اور ہلاکت کی وادیوں سے دور رہتے ہیں۔ آپ کے افعال تناقض سے پاک ہوتے ہیں اور آپ کے اقوال و افعال میں تضاد نہیں ہوتا۔ آپ صرف نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، ہمیشہ سچی خبردیتے ہیں۔ اگر آپ کسی کام کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس پر سب سے پہلے خود عمل کرتے ہیں اور اگر کسی کام سے روکتے ہیں تو سب سے پہلے خود اس کام کو ترک کرتے ہیں۔ کیا آپ کا حال ان شاعروں کے احوال سے کوئی مناسبت رکھتا ہے یا ان کے احوالے کے کہیں قریب دکھائی دیتا ہے ؟ یا ہر لحاظ سے آپ کے احوال ان شعراء حضرات کے احوال سے بالکل مختلف ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کا سلام ہو بدال آباد تک اس رسول اکمل اور سب سے افضل، عالی ہمت سردار پر جو شاعر ہے نہ ساحر و مجنون بلکہ اوصاف کمال کے سوا اور کچھ اس لائق نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شعراء کے یہ اوصاف بیان کرنے کے بعد ان میں ان شعراء کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں، نیک کام کرتے ہیں نہایت کثرت سے اللہ کا ذکر کریت ہیں، اپنے مشرک دشمنوں سے انکے ظلم کا بدلہ لیتے ہیں۔ ان کی شاعری ان کے اعمال صالحہ اور آثار ایمان میں شمار ہوتی ہے کیونکہ یہ اہل ایمان کی مدح، اہل کفرو شرک سے انتقام، اللہ تعالیٰ کے دین کے دفاع، علوم نافعہ کی توضیح و تبین اور اخلاق فاضلہ کی ترغیب پر مشتمل ہوتی ہے، اس لئے فرمایا : (الا الذین امنوا وعملو الصلحت وذکروا اللہ کثیرا وانتصرو من بعد ما ظلموا وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون) ” مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور اللہ کو بہت یاد کرتے رہے اور اپن اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔ “ یعنی حساب کتاب کے لئے، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہ ہوگی جسے اللہ تعالیٰ نے درج نہ کر رکھا ہو، کوئی حق ایسا نہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ پورا نہ کرے۔ والحمد اللہ رب العالمین۔
Top