Tafseer-e-Saadi - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں سے (راستہ کا) پتہ لاتا ہوں یا سلگتا ہوا انگارا تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو
آیت 7 سے 14 یعنی موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کے احوال میں سے آپ پر وحی کی ابتداء، اللہ تعالیٰ کے آپ کو چن لینے اور آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی حالت شریقہ و فاضلہ کو یاد کیجئے۔۔۔ یہ واقعہ یوں ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین میں چند سال ٹھہرے اور پھر مدین سے اپنے گھر والوں کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے تو سفر کے دوران وہ راستہ بھول گئے، رات سخت تاریک اور ٹھنڈی تھی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا : (انی انست نارا) یعنی میں نے (دور) آگ دیکھی ہے : (ساتیکم منھا بخبر) میں وہاں سے تمہارے لئے راستے کے بارے میں کوئی خبر لاتا ہوں (اواتکیم بشھاب قبس لعللکم تصطلون) ” یا سلگتا ہوا نگارا تمہارے پاس لاتا ہوں، تاکہ تم آگ تاپ سکو۔ “ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اور ان کے گھر والے بیاباں میں بھٹک گئے تھے اور سخت سردرات تھی۔ (فلما جاھ ھا نودی ان بورک من فی النار ومن حولھا) ” پس جب وہ اس کے پاس آئے تو ندا آئی کہ بابرکت ہے وہ جو آگ میں ہے اور وہ جو اس (آگ) کے اردگرد ہیں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا اور آگاہ فرمایا کہ یہ نہایت مقدس اور مبارک جگہ ہے۔ یہ اس مقام کی برکت ہی ہے کہ اللہ تالیٰ نے اس مقام کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف کلام بخشنے، آپ کو آواز دینے اور آپ کو رسالت سے سرفراز کرنے کے لئے منتخب فرمایا : (وسبحن اللہ رب العلمین) یعنی اللہ رب کائنات اسی چیز سے پاک اور منزہ ہے کہ اس کے بارے میں کسی نقص اور برائی کا گمان کیا جائے۔ (یموسی انہ انا اللہ العزیز الحکیم) ” اے موسیٰ ! میں ہی اللہ، غالب و دانا ہوں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آگاہ فرمایا کہ صرف اللہ ہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا : (اننی انا اللہ لا الہ الا انا فاعبدنی واقم الصلوٰۃ الذکری) (طۃ : 20/14) ” میں اللہ ہوں، جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ پس میری عبادت کر اور مجھے یادر کھنے کے لئے نماز قائم کرو۔ “ (العزیز) جو تمام اشیاء پر غالب ہے اور جس کے سامنے تمام مخلوقات مطیع اور سرافگندہ ہیں۔ (الحکیم) وہ اپنے امرو خلق میں حکمت والا ہے۔ یہ اس کی حکمت ہی ہے کہ اس نے اپنے بندے موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا جن کے بارے میں اللہ تبارک تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ رسالت، وحی اور شرف کلام بخشے جانے کے اہل ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ ہی ہے کہ آپ اس پر بھروسہ کرتے ہیں آپ اپنے تنہا ہوتنے، دشمنوں کی کثرت اور ان کے ظلم و جبر کے باوجود وحشت نہیں کھاتے۔ کیونکہ ان کی پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اور ان کی حرکات و سکون اس کے دست تدبیر کے تحت ہیں۔ (والق عصاک) ” اور اپنی لاٹھی ڈال دو ۔ “ پس انہوں نے اپنی لاٹھی ڈال دی (فلما راھ اتھتذ کانھا جان) ” پس جب اسے حرکت کرتا ہوا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے۔ “ وہ ایک سریع الحرکت نر سانپ تھا۔ (ولی مدبرا ولم یعقب) ” تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ “ آپ طبیعت بشری کے تقاضے کے مطابق اس سانپ سے خوف کھا کر بھاگے جو آپ نے دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیی (علیہ السلام) سے فرمایا : (یموسی لاتخفف) ” اے موسیٰ ! ڈرئیے مت۔ “ ایک مقام پر فرمایا : (اقبل ولا تخفف انک من الامنین) (القصص : 28/31) ” اے موسیٰ !” آگے آ، ڈر مت، یقیناً تو ہر طرح امن والا ہے۔ “ (انی لا یخاب لدی المرسلون) ” پیغمبر میرے پاس ڈرا نہیں کرتے۔ “ پیغمبروں کو کوئی امر خوف زدہ نہیں کرتا اس لیے کہ تمام مقامات خوف اللہ تعالیٰ کی قضاو قدر، اس کے تصرف اور امر کے مطابق درج ہیں۔ وہ نفوس قدسیہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے متخص اور اپنی وحی کے لئے چن لیا ہے ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ غیر اللہ سے ڈریں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی قرب اور اس سے ہم کلامی کے موقع پر۔ (الا من ظلم ثم بدل حسنا بعد سوء) ” ہاں جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد اسے نیکی سے بدل دیا۔ “ یعنی یہ ہے وہ مقام جہاں اپنے ظلم اور جرم کے سبب سے وحشت اور خوف آنا چاہیے۔ رہے انبیاء ومرسلین (علیہ السلام) تو وحشت اور خوف کا ان کے ساتھ کیا تعلق ؟ اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے ظلم کا ارکاب کیا پھر اس نے توبہ کے ذرئعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اپنی برائیوں کو نیکیوں کے ساتھ اور اپنی نافرمانیوں کو اطاعت کے ساتھ بدل ڈالا تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے کسی کو اس کی رحمت اور مغفر ت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے۔ (وادخل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوء) ” اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو، وہ سی بیماری کے بغیر سفید نکلے گا۔ “ یعنی برص اور نقص نہیں تھا بلکہ سفید، اس کی شعاعیں دیکھنے والوں کو مبہوت کئے دے رہی تھی : (فی تسع ایت الی فرعون وقومہ) ” نو معجزے لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ “ یعنی یہ دو معجزات، عصا کا دوڑتا ہوا سانپ بن جانا، ہاتھ کا گریبان سے نکالنا، اس کا سفید نکلنا، جملہ نو معجزات میں شامل ہیں۔ آپ ان معجزات کے ساتھ جائیں فرعون اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ ی طرف بلائیں۔ (انھم کانو اقوما فسقین) ” بیشک وہ فاسق لوگ ہیں۔ “ انہوں نے اپنے شرک، سرکشی، اللہ کے بندوں پر تغلب اور زمین میں ناحق تکبر کے ذریعے سے فسق کا ارتکاب کیا۔ پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے اشراف کے پاس گئے، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور ان کو معجزات دکھائے۔ (فلماجاھ تھم ایتنا مبصرۃ) ” پس جب ان کے پاس روشنی نشانیاں آئیں “ جو حق پر دلالت کرتی تھیں اور ان کے ذریعے سے (حق) ایسے دیکھا جاسکتا ہے جیسے آنکھیں سورج کے ذریعے سے دیکھتی ہیں۔ (قالو اھذا سحر مبین) ” تو انہوں نے کہا یہ صریح جادو ہے۔ “ انہوں نے اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا کہ ” یہ جادو ہے “ بلکہ انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا : (مبین) ” یہ کھلا دجادو ہے “ جو ہر ایک پر ظاہر ہے، حالانکہ یہ سب سے زیادہ تعجب خیز معجزات، واضح دلائل اور ہر طرف پھیل جانے والی روشنیاں تھیں جو فرضی قصے کہانیاں سے بہت زیادہ واضح اور جادوں کے کرتبوں سے بہت زیادہ ظاہر کرکے دکھائی گئی تھیں۔ یہ سب انکار حق اور انتہائی مغالطہ آمیز طرز استدلال ہے۔ (وجحدوا بھا) ” اور انہوں نے اس کا انکار کیا۔ “ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہوئے ان سے کفر کیا۔ (واستیقتنھا انفسھم) ” حالانکہ ان کے دل اس کو مان چکے تھے۔ “ یعنی ان کا انکار کرسی شک و ریب پر مبنی نہیں تھا۔ انہوں نے آیات الٰہی کی صحت کے علم اور یقین کے باوجود ان کا انکار کیا۔ (ظلما) یعنی انہوں نے اپنے رب کے حق اور خود اپنے آپ ظلم کرتے ہوئے (عملوا) حق اور بندوں پر غلبہ اور انبیاء ومرسلین کی اطاعت کے مقابلے میں تکبر کا اظہار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ آیات کا انکار کیا۔ (فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین) ” پس دیکھئے مفسدوں کا کیسا (بدترین) انجام ہوا۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ و برباد کردیا، ان کو سمندر میں غرق کیا، انہیں رسوا کی اور ان کی رہائش گاہوں اور مساکن کا اپنے کمزور بندوں کو وارث بنایا۔
Top