Tafseer-e-Saadi - Al-Qasas : 52
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ : جنہیں ہم نے کتاب دی مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل هُمْ بِهٖ : وہ اس (قرآن) پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں
جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں
(آیت 52 اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کی عظمت، صداقت اور حقانیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ حقیقت کا علم رکھنے والے اہل علم ہی اس کو پہچانتے، اس پر ایمان لاتے اور اس کی حقانیت کا اقرار کرتے ہیں، چناچہ فرمایا : (آیت) ” جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی۔ “ اس سے مراد وہ اہل تورات اور اہل انجیل ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں تغیر و تبدل نہیں کیا۔ (ھم بہ) وہی اس قرآن اور قرآن کے لانے والے پر (یومنون) ” ایمان رکھتے ہیں۔ “ (آیت) ” اور جب ان کے سامنے اس قرآن کو پڑھا جاتا ہے “ تو اسے غور سے سنتے ہیں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ (آیت) ” تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے بیشک وہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہےْ “ کیونکہ یہ ان کتابوں کے موافق ہے جنہوں نے انبیاء ورسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور ان کتابوں میں جو کچھ مذکور ہے اس کے عین مطابق ہے، سچی خبروں اور حکمت پر مبنی اوامرونواہی پر مشتمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی شہادت مفید اور ان کا قول نفع مند ہے۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں، علم و بصیرت کی بنیاد پر کہتے ہیں کیونکہ وہ اہل خبر اور اہل کتاب ہیں۔ ان کے لاوہ دیگر لوگوں کا قرآن کو رد کرنا اور اس کی مخالفت کرنا ان کے لئے حجت ہونا تو کجا، وہ کسی شبہ پر بھی دلالت نہیں کرتا کیونکہ وہ لوگ جاہل یا حق کے بارے میں معاند متجاہل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) (بنی اسرائیل : 71 / 701) ” کہہ دیجئے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جن لوگون کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب ان کے سامنے اسے پڑھا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدوں میں گرجاتے ہیں۔ “ اور ان کا قول ہے : (آیت) ” ہم تو اس کے پہلے سے مطیع ہیں۔ “ اسی لئے جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان اور اسلام سے سرفراز فرمایا تو ہم اس پر ثابت قدم رہے، ہم نے اس قرآن کی تصدیق کی اور ہم پہلی اور آخری کتاب پر ایمان لائے، ہمارے علاوہ دیگر لوگ جب اس کتاب کی تکذیب کرتے ہیں تو ان کی یہ تکذیب پہلی کتاب پر ایمان کے متناقض ہے۔ (آیت) ” یہی لوگ “ یعنی جو دونوں کتابوں پر ایمان لائے۔ (آیت) ” ان کو دو بار اجر عطا کیا جائے گا “ ایک اجر پہلی کتاب پر ایمان لانے پر اور ایک اجر دوسری کتاب پر ایمان لانے پر (آیت) اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایمان پر صبر کیا اور عمل پر ثابت قدم رہے کوئی شبہ ان کے ایمان کو منزلزل کرسکا نہ کوئی ریاست و شہوت ان کو اپنے ایمان سے ہٹ اس کی (وَ ) ” اور “ وہ اپنے بہترین خصائل، جو ان کے ایمان صحیح کے آثار ہیں، کے ذریعے سے بیشک وہ (آیت) ” برائی کو بھلائیہ کے ساتھ دفع کرتے ہیں۔ “ یعنی ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کی عادت اور طریقہ ہے۔ یہاں تک کہ جو کوئی قول و فعل کے ذریعے سے ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے تو یہ اچھی بات اور اچھے فعل کے ذریعے سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس خلق عظیم کی فضیلت کا اچھی طرح علم ہے اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ اس خلق عظیم کی توفیق کسی خوش قسمت ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ ہیں کیونکہ انہیں اس خلق عظیم کی فضیلت کا اچھی طرح علم ہے اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ اس خلق عظیم کی توفیق کسی خوش قسمت ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ (واذا سمعواللغو) ” اور جب وہ کوئی فضول بات سنتے ہیں “ کسی جاہل شخص سے جو ان سے لغو گفتگو کرتا ہے (قالوا) تو وہ رحمان کے عقلمند بندوں کی مانندان سے کہتے ہیں : (لنا اعمالنا ولکم اعمالکم) ” ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال “۔ یعنی ہر شخص کو اسی اکیلے کے عمل کی جزا دی جائے گی اس پر کسی دوسرے کے عمل کا بوجھ نہیں ہوگا۔ اس سے لازم آتا ہے کہ وہ جہلاء کے لغو اور باطل کاموں اور بےفائدہ کلام سے بچے ہوئے ہیں۔ (سلم علیکم) ” سلامتی ہو تم پر “ یعنی تم لوگ ہم سے بھلائی کے سوا کچھ نہیں سنو گے اور نہ ہم تم سے تمہاری جہالت کے تقاضے کے مطابق مخاطب ہوں گے۔ کیونکہ تم اگرچہ اپنے لئے اس کمینگی پر راضی ہو مگر ہم اپنے آپ کو اس کمینے رویے سے پاک رکھتے ہیں اور اس میں ملوث ہونے سے بچتے ہیں۔ (لانبتعی الجھلین) ” ہم (کسی معاملے) میں جاہلوں سے نہیں الجھتے “۔
Top