Tafseer-e-Saadi - Al-Qasas : 66
فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْاَنْۢبَآءُ یَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَعَمِيَتْ : پس نہ سوجھے گی عَلَيْهِمُ : ان کو الْاَنْۢبَآءُ : خبریں (باتیں) يَوْمَئِذٍ : اس دن فَهُمْ : پس وہ لَا يَتَسَآءَلُوْنَ : آپس میں سوال نہ کریں گے
تو وہ اس روز خبروں سے اندھے ہوجائیں گے اور آپس میں کچھ بھی نہ پوچھ سکیں گے
آیت 66 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ قیامت کے روز خلائق سے چند سوال کرے گا۔ 1 ۔۔۔ اصولی چیزوں کے بارے میں سوال کرے گا۔ 2 ۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان سے اپنی عبادت کے بارے میں سوال کرے گا۔ 3 ۔۔۔ اور انہوں نے اس کے رسولوں کو کیا جواب دیا اس بارے میں سوال کرے گا۔ چناچہ فرمایا : (یوم ینادیھم) یعنی اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو پکار کر کہے گا جنہوں نے اس کے شریک بنائے، وہ ان کی عبادت کرتے رہے، جلب منفعت اور دفع ضرر میں ان پر امیدیں رکھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوقات کے سامنے انہیں اس لئے پکار کر کہے گا تاکہ ان کے سامنے ان کے معبودوں کی بےبسی اور خود ان کی گمراہی ظاہر ہوجائے۔ (فیقول این شرکاء ی) ” پس وہ (اللہ تعالیٰ ) فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں ؟ “ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اللہ تعالیٰ کی یہ ندا ان کے زعم اور ان کی بہتان طرازی پر طنز کے طور پر ہوگی، اس لئے فرمایا : (الذین کنتم ترعمون) ” جن کا تمہیں دعویٰ تھا “۔ تمہارے مزعومہ معبود اپنی ذات کے ساتھ کہاں ہیں اور کہاں ہے ان کی نفع دینے اور نقصان دینے کی طاقت ؟ اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت ان کے سامنے یہ بات اچھی طرح عیاں ہوجائے گی کہ جن خود ساختہ معبودوں کی وہ عبادت کرتے رہے ہیں جن پر ان کو بہت امیدیں اور توقعات تھیں، سب باطل اور کمزور تھے اور وہ امیدیں بھی بےثمر تھیں جو انہوں نے ان معبودوں سے وابستہ کر رکھی تھیں وہ اپنے بارے میں ضلالت اور بےراہ روی کا اعتراف کریں گے۔ بنابریں (قال الذین حق علیھم القول) ” وہ لوگ جن پر عذاب کی بات واجب ہوجائے گی کہیں گے “ کفر و شر میں ان کی قیادت کرنے والے سردار اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے (ربنا ھولا) ” اے ہمارے رب یہی “ وہ پیروکار ہیں (الذین اغوینا اغوینھم کما غوینا) ” جن کو ہم نے بد راہ کیا، ہم نے ان کو اسی طرح بدراہ کیا جس طرح ہم خود بدراہ ہوئے “۔ یعنی گمراہی اور بدراہی میں ہم میں سے ہر ایک شریک ہے اور اس پر عذاب واجب ہوگیا۔ وہ کہیں گے : (تبرانا الیک) یعنی ہم ان کی عبادت سے بری الذمہ ہیں ہم ان سے اور ان کے عمل سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ (ماگانو ایانا یعبدون) ” یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے “۔ یہ لوگ تو شیاطین کی عبادت کیا کرتے تھے۔ (رقیل) ” کہا جائے گا “ ان سے (ادعوا شرکاء کم) ” اپنے ان معبودوں کو بلا لو “ جن سے تمہیں کوئی نفع پہنچنے کی امید تھی چناچہ مصیبت کی ایسی گھری میں ان کو اپنے مزعومہ معبودوں کو بلانے کا حکم دیا جائے گا جس میں عابد اپنے معبود کو پکارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ (قدعوھم) ” پس وہ ان کو پکاریں گے “ تاکہ وہ ان کی کوئی فائدہ پہنچائیں یا ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں (فلم یستجیبوا لھم) ” مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے “ تب کفار کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ جھوٹے اور سزا کے مستحق ہیں۔ (وراوا العذاب) ” اور وہ اس عذاب کو دیکھیں گے “ جو ان کے آنکھوں دیکھتے نازل ہوگا جس کو وہ جھٹلایا اور اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ (لوانھم کانو یھتدون) ” کاش وہ ہدایت یاب ہوتے “۔ تو ان کو اس عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور انہیں جنت کے راستے کی طرف راہنمائی حاصل ہوتی، جیسے انہیں دنیا میں رہنمائی حاصل ہوئی تھی، مگر اس کے برعکس وہ دنیا میں راہ راست پر گامزن نہ ہوئے، اس لئے آخرت میں انہیں جنت کا راستہ نہیں ملا۔ (ویوم ینادیھم فیقول ماذا جبتھم المرسلین) ” اور جس روز اللہ ان کو پکارے گا اور کہے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا ؟ “ یعنی آیا تم نے ان کی تصدیق کرکے ان کی اتباع کی یا تم نے ان کی تکذیب کرکے ان کی مکالفت کر راستہ اختیار کیا ؟ (فعمیت علیھم الانباء یومذ فھم لایتساء لون) یعنی انہیں اس سوال کا جواب بن نہیں پڑے گا اور نہ انہیں صواب کا راستہ ہی ملے گا اور یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس مقام پر صریح اور صحیح جواب دیئے بغیر ان کی جان نہیں چھوٹے گی۔ یعنی اپنے احوال کے مطابق انہیں بتانا پڑے گا کہ انہوں نے ایمان اور اطاعت کے ساتھ رسولوں کی آظاز پر لبیک کہی تھی، مگر جب انہیں اپنے رسولوں کو جھٹلانے کے رویے، ان کے ساتھ اپنے عناد اور ان کے احکام کی مخالفت کے بارے میں معلوم ہوگا تو وہ کچھ نہیں بولیں گے اور نہ ایک دوسرے سے پوچھ سکیں گے کہ کیا جواب دیں خواہ جواب جھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
Top