Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 28
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ١٘ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : (یاد کرو) جب قَالَ : اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم کو اِنَّكُمْ : بیشک لَتَاْتُوْنَ : تم کرتے ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی مَا سَبَقَكُمْ : نہیں پہلے کیا تم نے بِهَا : اس کو مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اور لوط (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم (عجب) بےحیائی کے مرتکب ہوتے ہو تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا
آیت 28 گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) پر ایمان لا کر ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل ہوئے۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی ذریت میں سے نہیں بلکہ وہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بھتیجے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : ( وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتب) گرچہ عام ہے مگر حضرت لوط ( علیہ السلام) کا نبی ہونا حالانکہ وہ آپ کی اولاد میں سے نہ تھے اس آیت کے حلاف نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ حضرت خلیل ( علیہ السلام) کی مدح و ثنا کے سیاق میں آئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے لوط ( علیہ السلام) ابراہیم ( علیہ السلام) کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے اور جس شخص نے آپ کے ہاتھ پر ہدایت پائی وہ ہادی کی فضیلت کی طرف نسبت کی بنا پر آپ کی اولاد میں سے ہدایت پانے والے سے زیادہ کامل ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوط ( علیہ السلام) کو ان کی قوم میں مبعوث فرمایا ان میں شرک کی بیماری کے ساتھ ساتھ مردوں کے ساتھ بدکاری راہ زنی اور مجالس میں فواحش و منکرات کے ارتکاب جیسے برے کام بھی جمع تھے۔ لوط ( علیہ السلام) نے ان کو ان فواحش سے روکا اور ان پر ان فواحش کی قباحتیں واضح کیں اور ان کی پاداش میں نازل ہونے والے عذاب کے بارے میں آگاہ فرمایا مگر انہوں نے اس بات کی طرف کوئی توجہ دی نہ نصیحت پکڑی۔ ( فما کان جواب قومہ الا ان قالوا لئتنا بعذاب اللہ ان کنت من الصدقین) ” پس ان کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ لے آ اللہ کا عذاب اگر تو سچوں میں سے ہے۔ “ ان کا نبی ان سے مایوس ہوگیا اور اسے یقین ہوگیا کہ اس کی قوم عذاب کی مستحق ہے ان کے بہت زیادہ کھٹلانے کی وجہ سے حضرت لوب بےقرار ہوگئے آپ نے ان کے لئیبد دعا کی (قال رب انصرنی علی القوم المفسدین) ” انھوں (لوط ( علیہ السلام) نے کہا ‘ اے میرے رب ! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرلی اور ان قوم کو ہلاک کرنے کے لئے فرشتے بھیجے۔ لوط ( علیہ السلام) کے پاس جانے سے قبل یہ فرشتے ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس سے گزرے انہوں نے آپ کو اسحاق کی اور اس کے معد یعقوب کی خوشخبری دی۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ ان کا کہاں کا ارادہ ہے انہوں نے کہا کہ وہ قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں۔ فرشتوں نے جواب دیا ( لننجینہ و اھلہ الا امراتہ کانت من الغبرین) “ ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیں گے بجزان کی بیوی کے وہ پیچھے ہنے والوں میں ہوگی۔ “ پھر وہ وہاں سے چلیگئے اور لوط ( علیہ السلام) کے پاس آئے۔ ان کا آنا لوط ( علیہ السلام) کو بہت ناگوار گزرا اور بہت تنگدل ہوئے کیونکہ آپ ان کو پہچان نہ پائے تھے وہ سمجھتے تھے کہ وہ مہمان اور مسافر ہیں اس لئے وہ ان کے بارے میں اپنی قوم کے رویے سے خائف تھے تو فرشتوں نے آپ سیکہا۔ (لا تخف وال تحزن) ” خوف کیجئے نہ رنج کیجئے۔ “ اور انہوں لوط ( علیہ السلام) کو بتایا کہ وہ اللہ لعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ( انا منجوک واھلک الا امراتک کانت من الغبرین۔ انا منزلون علی اھل ھذہ القریۃ رجزامن السماء بماکانوا یفسقون) ” ہم آپ کو اور ٓپکیگھر والوں کو بچا لیں گے بجز آپ کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی۔ بیشک ہم اس بستی کے رہنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کیونکہ یہ بدکاری کر رہے تھے۔ “ فرشتوں نے لوط ( علیہ السلام) سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات نکلج جائیں۔ پس جب صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گھروں کو ان پر الٹ دیا اور اوپر والا حصہ نیچے کردیا اور ان پر پے درپے کھنگر کے پتھر برسائے جنہوں نے ان کو ہلاک کر کے تیست ونا بود کردیا ‘ لہٰذا وہ کہانیاں اور عبرت کا نشان بن کر رہ گئے۔ (ولقد ترکنا منھا ایۃ م بینۃ لقوم یعقلون) یعنی ہم نے دیا قوم لوط کو عقل مند لوگوں کے لئے واضح آثار اور ان کے دلوں کے لئے عبرت بنادیا پس وہ ان آثار سے مثفع ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وانکم لتمرون علیھم مصبحین۔ وبالیل افلا تعقلون) (الصفت : 73؍731۔ 831) ” تم دن رات ان کے اجڑے ہوئے گھروں پر گزرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ “
Top