Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 41
مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ١ۚۖ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا١ؕ وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے اتَّخَذُوْا : بنائے مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَوْلِيَآءَ : مددگار كَمَثَلِ : مانند الْعَنْكَبُوْتِ : مکڑی اِتَّخَذَتْ : اس نے بنایا بَيْتًا : ایک گھر وَاِنَّ : اور بیشک اَوْهَنَ : سب سے کمزور الْبُيُوْتِ : گھروں میں لَبَيْتُ : گھر ہے الْعَنْكَبُوْتِ : مکڑی کا لَوْ كَانُوْا : کاش ہوتے وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے
جن لوگوں نے خدا کے سوا (اوروں کو) کارساز بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک (طرح کا) گھر بناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے کاش یہ (اس بات کو) جانتے
آیت 41 یہ مثال ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس شخص کے لئے بیان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کی عبادت بھی کرتا ہے اور اس کا مقصد ان سے عزت قوت اور منفعت کا حصول ہے حالانہ حقیقت اس کے مقصود کے بالکل برعکس ہے۔ اس شخص کی مثال اس مجڑی کی سی ہے جس نے جالے کا گھر بنایا ہوتا کہ گرمی سردی اور دیگر آفات سے محفوظ رہے۔ (وان اوھن البیوت) مگر سب سے کمزور گھر ( لبیت العنکبوت) ” مکڑی کا گھر ہوتا ہے مکڑی کا شمار کمزور حیوانات میں ہوتا ہے اور اس کا گھر تو سب سے کمزور گھر ہے وہ گھر بنا کر اس میں کمزوری کے سوا کچھ اضاعہ نہیں کرتی۔ اسی طرح مشرکین نے جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھی ہیں وہ ہر لحاظ سے محتاج اور عاجز ہیں یہ لوگ غیر اللہ کی اس لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریچے سے عزت اور فتح و تصرت حاصل کریں مگر وہ اپنی کمزوری اور بےبسی ہی میں اضاعہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بہت سے مصالح کو ان پر بھروسہ کرتے ہوئے ان پر چھوڑ دیا اور ان سے الگ ہوگئے کہ عن قریب ان کے معبود ذمہ داری اٹھالیں گے تو ان کی معبودوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ پس انہیں ان سے کوئی فائدہ اور کوئی ادنیٰ سی مدد بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ اگر انہیں اپنے حال کے بارے میں حقیقی علم ہوتا اور انہیں ان ہستیوں کی بےبسی کا حال بھی معلوم ہوتا تو وہ انہیں کبھی معبود نہ بناتے ان سے بڑزای کا اظہار کرتے اور رب قادر و رحیم کو اپنا والیو مددگار بناتے۔ ببندہ جب اس قادر و رحیم کو اپنا سرپرست بنا کر اس پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کے دین و دنیا کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ اسے قلب و بدن اور حال و اعمال میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کے معبود ان باطل کی کمزوری بیان کرنے کے معد اس سے زیادہ بلیغ اسلوب کی طرف ارتقاء کیا فرمایا کہ ان معبود ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں بلکہ یہ تو مجر و نام ہیں جو انہوں نے گھڑ لئے ہیں اور محض وہم و گمان ہے جس کو انہوں نے عقیدہ بنا لیا ہے۔ تحقیق کے وقت ایک عقل مند شخص پر اس کا بطلان واضح ہوجائے گا بنابریں فرمایا : (ان اللہ یعلم ما یدعون من دونہ من شیء) یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے .... اور وہ غائب و موجود کا علم رکھنے والا ہے .... کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس چیز کو پکارتے ہیں ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ان کا کوئی وجود ہے نہ وہ حقیقت میں الٰہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے : (ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم وابا ئکم ما انزل اللہ بھا من سلطن) (النجم : 35؍32) ” یہ صرف نام ہیں جن کو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے گھڑ لیا ہے جس پر اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری۔ “ اور فرمایا : (وما یتبع الذین یدعون من دون اللہ شرکاء ان یتبعون الا الظن وان ھم الا یخرصون) (یونس : 1؍66) ” اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا کچھ خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ صرف وہم و گمان کے پیرو ہیں اور وہ محض قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ “ (وھو العزیز) جو تمام قوت کا مالک اور جو تمام مخلوق پر غالب ہے (الحکیم) جو تمام چیزوں کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے جس نے ہر چیز کو بہترین تخلیق سے نوازا اور اس نے جو حکم دیا بہترین حکم دیا۔ (وتلک الامثال نضربھا لناس) ” اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ مثالیں لوگوں کے فائدے اور ان کی تعلیم کی خاطر بیان کی ہیں کیونکہ ضرب الامثال علوم کو توضیح کے ساتھ بیان کرنے کا طریقہ ہے۔ ضرب الامثال کے ذریعے سے امور عقلیہ کو امورحیہ کے قریب لایا جاتا ہے اور مثالوں کے ذریعے سے معانی مطلوبہ واضح ہوجاتے ہیں۔ (وما یعقلھا) مگر اس میں غور و فکر کے بعد اس میں وہی لوگ فہم حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے قلب میں عقل کے ساتھ وہی لوگ اس کی تطبیق کرتے ہیں، (الا العلمون) جو حقیقی اہل علم ہیں اور علم ان کے قلب کی گہرائیوں میں جگزیں ہے۔ یہ ضرب الامثال کی کی مدح و توصیف ہے نیز ان میں تدبر کرنے اور ان کو سمجھنے کی ترغریب اور جو کوئی ان میں سمجھ پیدا کرتا ہے اس کی مدح ثنا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرب الا مثال استعمال کرنے والا شخص اہل علم میں سے ہے اور تیز جو ان کو نہیں سمجھتا وہ اہل علم میں شمار نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قراٰن مجید میں جو امثال بیان کی ہیں وہ بڑے بڑے امور مطالب عالیہ اور مسائل جلیلہ میں بیان کی ہیں اہل علم جانتے ہیں کہ ضرب الامثال دیگر اسالیب بیان سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کو در خور اعتناء قرار دیا ہے اور اپنے کو ترغیب دی ہے کہ وہ ان میں غور و فکر کریں اور ان کی معرفت محاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ رہا وہ شخص جو ضرب لامثال کی اہمیت کے باوجو ان کو نہیں سمجھتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اہل علم میں سے نہیں ہے کیونکہ جب وہ نہایت اہم مسائل کی معرفت نہیں رکھتا تو غیر اہم مسائل میں اس کی عدم معرفت زیادہ اولیٰ ہے بنابریں اللہ تمارک و تعالیٰ نے زیادہ تر اصول دین وغیرہ میں ضرب الامثال استعمال کی ہیں۔
Top