Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 47
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ۚ وَ مِنْ هٰۤؤُلَآءِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ١ؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ : ہم نے نازل کی تمہاری طرف الْكِتٰبَ ۭ : کتاب فَالَّذِيْنَ : پس جن لوگوں کو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے دی انہیں الْكِتٰبَ : کتاب يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے ہیں بِهٖ ۚ : اس پر وَمِنْ هٰٓؤُلَآءِ : اور ان (اہل مکہ) سے مَنْ يُّؤْمِنُ : بعض ایمان لاتے ہیں بِهٖ ۭ : اس پر وَمَا يَجْحَدُ : اور وہ نہیں انکار کرتے بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتوں کا اِلَّا : مگر (صرف) الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف کتاب اتاری ہے تو جن لوگوں کو ہم نے کتابیں دی تھیں وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور بعض ان (مشرک) لوگوں میں سے بھی اس پر ایمان لے آتے ہیں اور ہماری آیتوں سے وہی انکار کرتے ہیں جو کافر (ازلی) ہیں
آیت نمبر : 47-48 (وکذلک انزلنا الیک الکتب) ” اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اتاری کتاب “ یعنی اے محمد ﷺ ہم نے آپ پر یہ کتاب کریم نازل کی جو ہر بڑی خبر کو کھول کھول کر بیان کرتی ہے جو ہر خلق حسن اور ہر امر کامل کی طرف دعوت دیتی ہے ‘ جو تمام کتب سابقہ کی تصدیق کرتی ہے جن کے بارے میں گزشتہ انبیاء نے خبر دی ہے۔ (فالذین اتینھم الکتب) ” پس جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا کی ہے “ انہوں نے اسے اس طرح پہچان لیا ہے جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے اور ان کے ہاں کسی حسد نے مداخلت کی ہے نہ خواہشات نفس نے۔ (یومنون بہ) ” وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ “ کیونکہ انہیں اس کے برحق اور سچے ہونے کا یقین ہوگیا ہے ‘ اس لیے کہ انہی کی کتابوں میں ایسی باتیں ہیں جو قرآن کے موافق ہیں اور بشارتیں ہیں اور ایسے امور ہیں جن کے ذریعے سے وہ حسن و قبح اور صدق و کذب میں امتیاز کرتے ہیں۔ (ومن ھؤلآء) ” اور ان لوگوں میں سے۔ “ جو موجود ہیں (من یؤمن بہ) ” ایسے بھی ہیں جو ایمان لاتے ہیں اس کے ساتھ۔ “ یعنی جو اس پر رغبت اور خوف کی بنا پر نہیں بلکہ بصیرت کی بنا پر ایمان لاتے ہیں (وما یجحد بایتنا الا الکفرون) ” اور صرف کفار ہی ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں “ جن کی فطرت میں انکار حق اور عناد رچا بسا ہوا ہے۔ اس حصر کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے اس کا انکار کیا یعنی ان میں سے کسی شخص کا مقصد متابعت حق نہیں۔ ورنہ جس شخص کا مقصد صحیح ہے تو وہ لازمی طور پر ایمان لاتا ہے کیونکہ یہ واضح دلائل پر مشتمل ہے اور ان دلائل کو ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے جو عقل سے بہرہ ور ہے ‘ جو اسے توجہ سے سنتا ہے اور اس کی صداقت پر گواہ بھی ہے۔ اس عظیم کتاب کی صداقت پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ اسے وہ نبی امین لے آیا ہے جس کی صداقت اور امانت کا اس کی پوری قوم اعتراف کرتی ہے ‘ جس کے پورے معمولات اور تمام احوال کو اس کی قوم اچھی طرح جانتی ہے وہ اپنے ہاتھ سے لکھ نہیں سکتا بلکہ وہ تو لکھا ہوا پڑھ نہیں سکتا۔ اس صورتحال میں ایک کتاب پیش کرنا سب سے بڑی اور قطعی دلیل ہے ‘ جس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب اور قابل ستائش ہے ‘ بنا بریں فرمایا : (وما کنت تتلوا) یعنی آپ پڑھ نہیں سکتے تھے (من قبلہ من کتب ولا تخطہ بیمینک اذا) ” اس سے پہلے کوئی کتاب اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ‘ اگر ایسا ہوتا۔ “ یعنی اگر آپ کا یہ حال ہوتا کہ آپ لکھ پڑھ سکتے تھے (لارتاب المبطلون) ” تو اہل باطل ضرور شک کرتے “ اور کہتے کہ محمد ﷺ نے تمام چیزیں پچھلی کتابوں سے پڑھی ہیں یا وہاں سے نقل کی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے قلب پر ایک جلیل القدر کتاب نازل فرمائی۔ اس جیسی کتاب لانے یا اس جیسی ایک سورت ہی بنا لانے کے لیے بڑے بڑے فصیح وبلیغ اور جھگڑالو دشمنوں کو مقابلے کی دعوت دی گئی مگر وہ بالکل عاجز آگئے بلکہ اس کی فصاحت و بلاغت کو دیکھ کر انہوں نے اس کا مقابلہ کرنے کا خیال بھی دل سے نکال دیا۔
Top