Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 50
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : نازل کی گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيٰتٌ : نشانیاں مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اس کے رب سے قُلْ : آپ فرمادیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس وَاِنَّمَآ اَنَا : اور اس کے سوا نہیں کہ میں نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : صاف صاف
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے نشانیاں کیوں نازل نہیں ہوئیں کہہ دو کہ نشانیاں تو خدا ہی کے پاس ہیں اور میں تو کھلم کھلا ہدایت کرنے والا ہوں
آیت نمبر : 52-51-50 جب رسول اللہ ﷺ یہ کتاب عظیم لے کر آئے تو ان ظالموں نے اعتراض کیا اور معینہ معجزات کے نزول کا مطالبہ کیا جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وقالوا لن نؤمن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعا) (بنی اسرائیل : 71/09) ” اور انہوں نے کہا ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے پانی کا ایک چشمہ جاری نہ کردے۔ “ معجزات و آیات کا تعین ان کے بس کی بات ہے نہ رسول ﷺ کے اختیار میں ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی تدابیر ہیں اور کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ‘ اس لیے فرمایا : (قل انما الایت عنداللہ) ” کہہ دیجیے ! معجزات تو اللہ ہی کے پاس ہیں۔ “ لہٰذا اگر وہ چاہے تو وہ یہ آیات نازل کردے اور نہ چاہے تو روک دے۔ (وانمآ انا نذیر مبین) ” اور میں تو صرف کھلا خبردار کرنے والا ہوں “ اس سے زیادہ میرا کوئی مرتبہ نہیں۔ مقصد تو باطل سے حق کو واضح کرنا ہے۔ جب کسی بھی طریقے سے مقصد حاصل ہوگیا تو معین معجزات کا مطالبہ کرنا ظلم و جور ‘ اللہ تعالیٰ اور حق کے ساتھ تکبر اور عناد ہے ‘ بلکہ اگر رسول اللہ ﷺ ان آیات و معجزات کو نازل کرنے پر قادر ہوتے اور ان کے دلوں میں یہ بات ہوتی کہ وہ ان معجزات کے بغیر حق کو نہیں مانیں گے تو یہ حقیقی ایمان نہیں بلکہ ایک ایسی چیز ہے جو ان کی خواہشات نفس کے مطابق ہے اس لیے وہ ایمان لے آئے۔ وہ اس لیے ایمان نہیں لائے کہ وہ حق ہے بلکہ اس لیے ایمان لائے ہیں کہ ان کا معجزے کا مطالبہ پورا ہوگیا۔ فرض کیا اگر ایسا ہی ہو تو معجزات نازل کرنے کا کون سا فائدہ ہے ؟ چونکہ مقصد تو حق بیان کرنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا طریقہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (اولم یکفھم) ” کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ؟ “ یعنی کیا انہیں آپ کی صداقت اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کی صداقت کا یقین کافی نہیں ؟ (انآ انزلنا علیک الکتب یتلیٰ علیھم) ” کہ بلاشبہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ “ یہ مختصر اور جامع کلام ہے جو واضح آیات اور بہت سے روشن دلائل پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ رسول ﷺ کا ان پڑھ ہونے کے باوجود مجرد قرآن کا پیش کرنا ہی آپ کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے اس پر مستزاد اس کا انہیں مقابلہ کرنے کا چیلنج دینا اور ان کا مقابلہ کرنے میں بےبس ہونا دوسری بڑی دلیل ہے ‘ پھر علانیہ ان کے سامنے اس کا پڑھا جانا ‘ اس کا غالب و ظاہر ہونا اور یہ دعویٰ کیا جانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور رسول ﷺ کا ایسے حالات میں اس کو دلائل کے ذریعے سے غالب کرنا ‘ جبکہ آپ کے انصار و اعوان بہت کم اور مخالفین اور دشمن بہت زیادہ تھے ‘ تو ان حالات میں بھی آپ کا اس کو نہ چھپانا اور آپ کا اپنے عزم و ارادے سے باز نہ آنا بلکہ برسر عام شہروں اور بستیوں میں پکار پکار کر کہنا کہ یہ میرے رب کا کلام ہے۔۔۔ آپ کی صداقت کا بین ثبوت ہے۔ کیا کوئی اس کے ساتھ معارضہ کرسکتا ہے ‘ یا اس سے مقابلہ کرنے کی بات کرسکتا ہے ؟ پھر گزشتہ کتابوں پر اس کی نگہبانی کرنا ‘ صحیح باتوں کی تصدیق کرنا ‘ تحریف اور تغیر و تبدل کی نفی کرنا اور پھر اس کا اپنے اوامرو نواہی میں راہ راست کی طرف راہنمائی کرنا ‘ اس کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ اس نے کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دیا جس کے بارے میں عقل یہ کہتی ہو کہ کاش اس نے یہ حکم نہ دیا ہوتا اور کسی ایسی چیز سے نہیں روکا جس کے بارے میں عقل یہ کہتی ہو کہ کاش اس نے اس چیز سے نہ روکا ہوتا بلکہ یہ کتاب اصحاب بصیرت اور خرد مندوں کے نزدیک عدل و میزان کے عین مطابق ہے۔ پھر اس کے ارشادات ‘ اس کی ہدایت و رہنمائی اور اس کے احکام تمام حالات و زماں کے لیے جاری وساری ہیں ‘ نیز تمام امور کی اصلاح اسی سے ممکن ہے۔۔۔۔ یہ تمام چیزیں اس شخص کے لیے کافی ہیں جو حق کی تصدیق چاہتا ہے اور حق کا متلاشی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو کفایت عطا نہیں کرتا ‘ جس کے لیے قرآن کافی نہ ہو اور ایسے شخص کو شفا سے نہیں نوازتا جس کے لیے قرآن شافی نہ ہو۔ جو کوئی قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے لیے کافی سمجھتا ہے تو یہ اس کے لیے رحمت اور بھلائی ہے ‘ اس لیے فرمایا : (ان فی ذلک لرحمۃ وذکری لقوم یؤمنون) ” بیشک مومنوں کے لیے اس میں نصیحت اور رحمت ہے۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عظیم کتاب علم کثیر ‘ لامحدود بھلائی ‘ تزکیۂ قلب و روح ‘ تطہیر عقائد ‘ تکمیل اخلاق ‘ فتوحات الٰہیہ اور اسرار ربانیہ پر مشتمل ہے۔ (قل کفی باللہ بینی وبینکم شھیدا) ” کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ “ اس لیے میں نے اسے گواہ بنایا ہے اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کا عبرتناک عذاب نازل ہو اگر اللہ تعالیٰ میری تائید اور مدد کرتا اور میرے لیے میرے تمام معاملات آسان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جلیل القدر شہادت تمہارے لیے کافی ہونی چاہیے اور اگر تمہارے دلوں میں یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت۔۔۔ جسے تم نے سنا ہے نہ دیکھا ہے۔۔۔ دلیل کے لیے کافی نہیں تو اللہ تعالیٰ (یعلم ما فی السموت والارض) ” آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ “ میرا حال ‘ تمہارا حال اور میری باتیں اس کے جملہ علم میں شامل ہیں۔ اگر میں نے اس پر جھوٹ گھڑا ہے ‘ حالانکہ وہ اس کا علم رکھتا ہے اور مجھے سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے ‘ تو یہ اس کے علم ‘ قدرت اور حکمت میں قادح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (ولو تقول علینا بعض الاقاویل۔ لاخذنا منہ بالیمین۔ ثم لقطعنا منہ الوتین) (الحاقۃ : 96/44۔ 64) ” اور اگر اس نے ہم پر کوئی جھوٹ باندھا ہوتا تو ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑلیتے اور پھر اس کی رگ جاں کاٹ دیتے۔ “ (والذین امنوا بالباطل وکفروا باللہ اولئک ھم الخسرون) ” اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور اللہ کا انکار کیا ‘ وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ “ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ ‘ اس کے فرشتوں ‘ اس کی کتابوں ‘ اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان نہ لاکر خسارے میں رہے اور چونکہ ان سے دائمی نعمتیں چھوٹ گئیں اور حق کے مقابلے میں باطل حاصل ہوا اور نعمتوں کے مقابلے میں الم ناک عذاب ‘ اسی لیے وہ قیامت کے روز ‘ اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں گھاٹے میں رہیں گے۔
Top