Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 129
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يَغْفِرُ : وہ بخشدے لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہے وَيُعَذِّبُ : اور عذاب دے مَنْ : جس يَّشَآءُ : چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب کرے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت 129 جب جنگ احد کے سنگین واقعات پیش آئے اور نبی ﷺ کو سخت مصائب پیش آئے، جن کی وجہ سے اللہ نے آپ کا مقام مزید بلند فرما دیا۔ اس موقع پر آپ کا سرمبارک زخمی ہوا، اور دندان مبارک شہید ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا : (کیف یفلح قوم شجوا نبیھم) (1) ” وہ قوم کس طرح فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنے اپنے نبی کو زخمی کردیا۔ “ اس موقعے پر آپ ﷺ نے مشرکین کے سرداروں کے حق میں بد دعا بھی فرمائی۔ مثلاً ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر وحی نازل فرما کر آپ کو ان کے خلاف دعا کرنے، انہیں لعنت کرنے، ان کے لئے رحمت سے دوری کی درخواست کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا : (لیس لک من الامرشی ءٌ) ” آپ کے اختیار میں کچھ نہیں “ آپ کے فرائض صرف یہ ہیں کہ تبلیغ کریں، مخلوق کی رہنمائی فرمائیں اور ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں۔ باقی معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے تدبیر فرماتا ہے۔ جسے چاہتا ہے ہدایت نصیب فرما دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ آپ انہیں بد دعائیں نہ دیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس کی حکمت اور رحمت کا تقاضا ہوگا تو ان کی توبہ قبول فرما کر انہیں اسلام کی نعمت عطا فرما دے گا اور اگر اس کی حکمت کا تقاضا ہوا تو انہیں ہدایت سے محروم فرما کر کفر میں پڑا رہنے دے گا۔ اس صورت میں اپنے نقصان کا باعث اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے وہی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان معین افراد کو اور دوسروں کو بھی ہدایت نصیب فرمائی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا اختیار بندوں کے اختیار پر غالب ہے۔ بندے کا درجہ جتنا بھی بلند ہو، اس سے یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک چیز کو بہت رسمجھ کر منتخب کرے حالانکہ بہتری اور مصلحت دوسری چیز میں ہو۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول ﷺ معاملات میں اختیار نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا دوسرے افراد بدرجہ اولیٰ اختیار سے محروم ہوں گے۔ اس میں انبیاء و اولیاء سے حاجتیں مانگنے والوں کی سخت تردید ہے اور یہ وضاحت ہے کہ اس قسم کا عقیدہ رکھنا شرک فی العبادت ہے، جو ان لوگوں کی کم عقلی کو ظاہر کرتا ہے کہ جس ہستی کے ہاتھ میں سب اختیارات میں اسے چھوڑ کر انہیں پکارتے ہیں جو ذرہ برابر اختیار نہیں رکھتے، یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔ غور کیجیے جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا تو فعل کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔ (یعنی یہ فرمایا کہ اللہ توبہ قبول فرماتا ہے) اس کا کوئی سبب بیان نہیں فرمایا جس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہو۔ تاکہ یہ ثابت ہو کہ نعمت تو بندے پر اللہ کا خلاص فضل ہوتا ہے۔ اس کے لئے ضروری نہیں کہ بندے کی طرف سے پہلے کوئی عمل ہوا ہو جو اس نعمت کا سبب بنے نہ کسی وسیلے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب عذات کا ذکر فرمایا تو ساتھ ہی ان کے ظلم کا ذکر فرمایا اور فائے سبیہ کے ذریعے سے واضح فرمایا کہ عذاب کا سبب ان کا ظلم ہے۔ ارشاد ہے : (اویعذبھم فانھم ظلمون) ” یا ان کو عذاب دے کیونکہ وہ ظال ہیں “ تاکہ اس سے اللہ کا کامل عدل او اس کی کامل حکمت ظاہر ہو، کہ اس نے سزا کو مناسب مقام پر رکھا اور بندے پر ظلم نہیں کیا، بلکہ بندے نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ جب یہ واضح فرما دیا کہ رسول کے ہاتھ میں اختیار نہیں، تو اس کے بعد بیان فرمایا کہ اختیار کس کے ہاتھ میں ہے۔ چناچہ فرمایا : (وللہ ما فی السموت وما فی الارض) ” آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کا ہے۔ “ یعنی فرشتے، انسان، جن، حیوانات، جمادات، افلاک وغیرہ اور آسمان اور زمین میں موجود تمام کی تمام اشیاء اللہ کی ملک اور اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کی تدبیر کے تابع ہیں۔ وہ ان میں اس طرح تصرف کرتا ہے جس طرح بادشاہ اپنے ملک میں تصرف کرتا ہے۔ اس حکومت میں ان کا ایک ذرہ بھی نہیں۔ جب صورت حال یہ ہے تو وہ سب اس کی مغفرت اور اس کے عذاب کے درمیان ہیں۔ وہ جسے چاہتا ہوں اس کی مغفرت اس طرح فرماتا ہے کہ ہدایت دے کر اسلام میں داخل کردیتا ہے۔ اس طرح اس کا شرک معاف کردیتا ہے اور اس پر یہ احسان فرماتا ہے کہ اسے گناہ ترک کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس طرح اس کے گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔ (ویعذب من یشآء) ” اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے “ وہ اس طرح کہ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ انسان کا نفس جاہل اور ظالم ہے جو برائیوں کے ارتکاب کا تقاضا کرتا ہے۔ چناچہ انسان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے گناہ کی سزا دے دیتا ہے۔ آیت مبارکہ کو دو اسمائے مبارکہ پر ختم کیا گیا ہے جن سے اللہ کی رحمت کی وسعت، اس کی مغفرت کا لامحدود ہونا، اس کے احسان کی وسعت و عموم ظاہر ہوتا ہے۔ چناچہ فرمایا : (واللہ غفور رحیم) ” اللہ بخشش کرنے والا مہربان ہے “ اس میں بہت بڑا اشارہ ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اور اس کی مغفرت اس کے مواخذہ پر غالب ہے۔ اس آیت میں مخلوق کی حالت بیان کی گئی ہے کہ ان میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے اور کسی کو عذاب دیتا ہے لیکن آیت کے آخر میں اس طرح کے دو اسمائے مبارکہ ذکر نہیں فرمائے کہ ایک سے اس کی رحمت ظاہر ہو اور دوسرے سے اس کا انتقام۔ پس اللہ تعالیٰ رحمت و احسان والا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ایسے انداز سے رحمت فرمائے گا جو کسی انسان کے خیال میں بھی نہیں آسکتا، نہ اس کی کیفیت معلوم ہوسکتی ہے۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے دامن رحمت میں جگہ دے اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لے۔ (آمین)
Top