Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 131
وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْۤ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَۚ
وَاتَّقُوا : اور ڈرو النَّارَ : آگ الَّتِىْٓ : جو کہ اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
اور (دوزخ) کی آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کئی گئی ہے
آیت 131-136 اس تفسیر کے مقدمہ میں گزر چکا ہے کہ بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ خود اپنی ذات میں اور دوسروں میں اوامرو نواہی کا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا حکم دیتا ہے تو سب سے پہلے بندہ مومن پر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی حدود کو پہچانے کہ وہ کیا چیز ہے جس پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ وہ اس کے حکم کی اطاعت کرسکے۔ جب اسے اس حکم کی حدود کی معرفت حاصل ہوجائے تو اپنی طاقت اور امکان بھر اپنی ذات اور دوسروں پر اس حکم کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرے اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے۔ اسی طرح جب اسے کسی امر سے روک دیا جائے تو وہ اس کی حدود کی معرفت حاصل کرے کہ کیا چیز اس کی حدود میں داخل ہے اور کیا چیز اس سے باہر ہے پھر اس کو ترک کرنے کی کوشش کرے اور اپنے رب سے مدد طلب کرے۔ یہ ایسا اصول ہے جسے اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر اور نواہی میں محلوظ رکھنا چاہیے۔ یہ آیات کریمہ بھلائی کے ان احکام اور خصائل پر مشتمل ہیں جن کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم اور ان کی ترغیب دی ہے اور ان کے اجر وثواب سے آگاہ فرمایا ہے اور ایسی منہیات پر مشتمل ہیں جن کو ترک کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے اور احد کے قصے کے درمیان ان آیات کو بیان کرنے کی حکمت شاید یہ ہے۔ واللہ اعلم۔۔ کہ گزشتہ آیات میں گزر چکا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کے دشمنوں پر فتح دے گا اور ان کے دشمنوں کی مدد چھوڑ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (وان تصبروا وتتقوا لایضرکم کیدھم شیاء) (آل عمران :120/3) ” اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی سازش تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ “ (فرمایا : (بلی ان تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم) (آل عمران :125/3) ” کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور کفار تم پر اچانک زور کا حملہ کردیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کرے گا۔ “ گویا نفوس انسانی تقویٰ کی خصائل کی معرفت کے مشتاق ہوئے، جن کے ذریعے سے فتح و نصرت اور فلاح وسعادت حاصل ہوتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تقویٰ کے اہم ترین خصائل کا ذکر فرمایا جن کو اگر بندہ مومن قائم کرلے تو پھر دوسرے خصائل تقویٰ کو وہ بطریق اولیٰ اختیار کرے گا۔ ہمارے اس قول کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ” تقوی “ کا لفظ تین بار ذکر فرمایا ہے۔ ایک دفعہ بغیر کسی قید کے علی الاطلاق ذکر فرمایا (اعدت للمتقین) ” جو متقین کے لئے تیار کی گئی ہے “ دو دفعہ تقویٰ کا ذکر مقید طور پر کیا (واتقوا اللہ) ” اللہ سے ڈرو “ (واثقوا النار) ” آگ سے ڈرو۔ “ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد (یا یھا الذین امنوا) قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یوں آتا ہے ” اے ایمان والو ! فلاں کام کردیا فلاں کام چھوڑ دو ۔۔۔ “ تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایمان ہی وہ سبب ہے جو اس حکم کی اطاعت کا داعی اور موجب ہے اور اس نہی سے اجتناب کا باعث ہے، کیونکہ ایمان ان تمام امور کی تصدیق کا مل کا نام ہے جن کی تصدیق واجب ہے اور اعضاء کے اعمال کو مستلزم ہے، چناچہ انہیں کئی کئی گنا سود کھانے سے منع کیا۔ جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا وہ لوگ ہیں جو شرعی احکام کی پروا نہیں کرتے۔ زمانہ جاہلیت میں سود لینے کا طریقہ یہ تھا کہ جب تنگ دست مقروض کے قرض کی ادائیگی کا وقت ہوجاتا اور اس سے کچھ حاصل ہونے کی امید نہ ہوتی تو قرض خواہ اس سے کہتا کہ وہ یا تو اپنا قرض ادا کر دے یا قرض خواہ مدت بڑھا دے گا اور مقروض کے ذمہ جو رقم ہے اس میں اضافہ ہوجائے گا۔ پس تنگ دست مقروض مجبور ہوجاتا اور اپنی جان چھڑانے اور وقتی طور پر راحت کی خاطر قرض خواہ کی شرائط کا التزام کرلیتا۔ اس طرح اس کے ذمہ جو قرض ہوتا وہ بغیر کسی فائدے کے، بڑھ کر کئی گنا ہوجاتا۔ پس اللہ تعالیٰ کے قول (اضعافاً مضعفۃ) میں سود کی برائی پر سخت تنبیہ بیان ہوئی ہے اور اس میں سود یک تحریم کی حکمت کی طرف اشارہ ہے اور سود کی حرمت کی حکمت یہ ہے کہ اس میں بےانتہا ظلم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سود لینے سے روک دیا اور وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے کہ تنگ دست مقروض کو مہلت دی جائے اور بغیر کسی اضافے کے اس کے ذمہ وہی قرض باقی رہنے دیا جائے جو اصل زر ہے اور اس پر اصل زر سے زیادہ رقم عائد کرنا سخت ظلم ہے۔ لہٰذا متقی مومن پر لازم ہے کہ وہ سود کو ترک کر دے اور اس کے قریب نہ جائے کیونکہ سود کو ترک کرنا موجبات تقویٰ میں سے ہے۔ فلاح تقویٰ پر موقوف ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (واتقو اللہ لعلکم تفلحون، واثقوا النار التی اعدت للکفرین) یعنی جہنم سے ڈرو اور ان تمام امور کو چھوڑ دو جو جہنم میں لے جاتے ہیں مثلاً کفر اور مختلف اقسام کے گناہ اور معاصی۔ کیونکہ تمام گناہ، خصوصاً کبیرہ گناہ کفر کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ کبیرہ گناہ تو کفر کے خصائل ہیں جس کے حاملین کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے اور گناہ اور معاصی کو ترک کرنا جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے اور (اللہ) جبار کی نارضای سے بچاتا ہے۔ نیکی اور اطاعت کے افعال رحمٰن کی رضا، جنت میں دخول اور حصول رحمت کے موجب ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (واطیعوا اللہ والرسول) یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے اللہ اور رسول کی اطاعت کرو (لعلکم ترحمون) کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت حصول رحمت کا سبب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ورحمتی وسعت کل شیء فساکتبھا للذین یتقون ویوتون الزکوۃ۔۔۔ ) (الاعراف :106/8) ” اور میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے اور میں اسے ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکواۃ دیتے ہیں۔ “ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مغفرت اور اس جنت کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیا ہے جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے، تب اس کی لمبائی کا کیا حال ہوگا، اللہ تعالیٰ نے اس کو تمقین کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ متقین ہی اس جنت کے وارث ہیں اور اعمال تقویٰ ہی جنت تک پہنچاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے متقین اور ان کے اعمال کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : (الذین ینفقون فی السرآء و الضرآء) یعنی وہ تنگی اور فراخی میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔ یعنی جب وہ مال دار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں کثرت سے خرچ کرتے ہیں اور جب وہ تنگدست ہوتے ہیں تو وہ نیکی کے کسی کام کو حقیر نہیں سمجھتے خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو (والکظمین الغیظ) یعنی جب ان کو دوسروں کی طرف سے کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو ان کے غصے کا موجب ہوتی ہے۔ یہاں (غیظ) سے مراد ان کے دلوں کا ایسے غصے سے لبریز ہونا ہے جو قول و فعل کے ذریعے سے انتقام کا موجب ہوتا ہے۔ یہ اہل تقویٰ طبائع بشری کے ان تقاضوں پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان کے دلوں میں جو غصہ ہوتا ہے اسے دبا دیتے ہیں اور برا سلوک کرنے والے کے مقابلے میں صبر سے کام لیتے ہیں۔ (والعافین عن الناس) لوگوں کو معاف کردینے میں ہر اس شخص کو معاف کردینا شامل ہے جو آپ کے ساتھ قول یا فعل کے ذریعے سے برائی سے پیش آتا ہے۔ (عفو) (کظم) سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ ” عفو “ برائی کرنے والے سے درگزر کرنے کے ساتھ، مواخذہ ترک کرنے کا نام ہے۔ یہ سب کچھ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے اپنے آپ کو اخلاق جمیلہ سے آراستہ اور عادات رذیلہ سے پاک کرلیا ہو اور وہ ان میں سے ہو جس کی تجارت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو۔ جو اللہ کے بندوں پر رحم اور احسان کرتے ہوئے اور اس خوف سے کہ کہیں ان کو برائی نہ پہنچے ان کو معاف کردیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے اور اس کا اجر اس کے رب کریم پر واجب ہو، نہ کہ اس بندہ فقیر پر۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ) (الشوری : 30/32) ” جو کوئی معاف کر دے اور معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے (بندہ مومن کے) ایسے حال کا ذکر فرمایا ہے جو دیگر احوال سے زیادہ عام، احسن و اعلی اور زیادہ جلیل القدر ہے اور وہ ہے احسان۔ فرمایا (واللہ یحث المحسنین) ” اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ‘ احسان کی دو قسمیں ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں احسان (2) اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان خالق کی عبودیت میں احسان کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں کمی ہے (ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک) (1) ” احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی بندگی اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے دیکھ نہیں رہا تو پھر وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ “ رہا مخلوق کے ساتھ احسان تو یہ ان کو دینی اور دنیاوی نفع پہنچانے اور ان سے دینی اور دنیاوی شر کو ہٹانے اور دور کرنے کا نام ہے۔ چناچہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جاہل کو تعلیم دینا، غافل کو وعظ و نصیحت کرنا، مسلمان عوام اور خواص کی خیر خواہی کرنا اور ان کو متحد رکھنے کی کوشش کرنا یہ تمام امور مخلوق کے ساتھ احسان کے زمرے میں آتے ہیں۔ نیز لوگوں کے مختلف احوال اور متباین اوصاف کے مطابق ان تک واجب اور مستحب صدقات وغیرہ پہنچانا بھی احسان ہی میں شامل ہے۔ پس سخاوت کرنا، لوگوں کی تکالیف رفع کرنا خود تکالیف برداشت کرنا احسان ہے۔ جیسا کہ انہی آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کا وصف بیان فرمایا ہے۔ پس جس نے مذکورہ بالا امور کو قائم کیا اس نے اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کو ادا کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی اس معذرت کا ذکر فرمایا جو وہ اپنے جرائم اور گناہوں کے بارے میں اپنے رب کے سامنے پیش کرتے ہیں (والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم) یعنی جب کبھی ان سے کوئی بڑا یا چھوٹا گناہ صادر ہوجاتا ہے تو وہ فوراً توبہ اور استغفار کرتے ہیں اور اپنے رب اور اس کی وعید کو یاد کرتے ہیں جو اس نے نافرمانوں کو سنا رکھی ہے اور اپنے رب کے اس وعدے کو یاد کرتے ہیں جو اس نے اہل تقویٰ سے کر رکھا ہے۔ پس وہ گناہوں کو ترک کرنے اور ان پر نادم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے ان گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس سے اپنے عیوب پر پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون) ” اور وہ جانتے ہوئے اپنی بد اعمالیوں پر اڑتے نہیں ہیں “ (اولئک) یعنی وہ لوگ جو ان صفات سے متصف ہیں (جزآؤ ھم مغفرۃ من ربھم) ” ان کی جزا مغفرت ہے ان کے رب کی طرف سے۔ “ اور یہ مغفرت ان کے ہر گناہ کو زائل کر دے گی ’ وجنت تجری من تحتھا الانھر) ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، شادمانی، خوبصورتی، رونق، بھلائی، مسرت، عالی شان محل، خوبصورت اور بلند منازل، پھولوں سے لدے ہوئے خوش کن درخت، اور ان خوبصورت مساکن و منازل میں نہریں بہہ رہی ہوں گی (خلدین فیھا) وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے انہیں وہاں سے نکالا جائے گا نہ وہ ان جنتوں کے بدلے میں کچھ اور چاہیں گے اور نہ ان نعمتوں کو، جن میں رہتے ہوں گے، بدلا جائے گا۔ (ونعم اجر العلمین) ” اور عمل کرنے والوں کا اجر اچھا ہے۔ “ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر تھوڑا عمل کیا مگر ان کو بہت زیادہ اجر عطا ہوا، مشقت برداشت کرنے کے بعد ہی راحت کی امید ہوتی ہے اور جزا کے وقت ہی عمل کرنے والے کو اپنے عمل کا پورا اور وافر بدلہ عطا ہوتا ہے۔ یہ آیات کریمہ موجنہ کے برعکس اہل سنت والجماعت کے اس موقف پر دلالت کرتی ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور آیت کریمہ سے استدلال کا پہلو سورة الحدید کی اس آیت کو ملا کر مکمل ہوتا ہے جو کہ اس آیت کی نظیر ہے (سابقوآ الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السمآء والارض اعدت للذین امنوا باللہ ورسلہ) (الحدید :21/28) ” اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کی چوڑائی زمین و آسمان کی چوڑائی کی مانند ہے جسے ان لوگوں کے لئے تیار کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں “ اس آیت کریمہ میں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اعدت للمتقین) ” جنت متقین کے لئے تیار کی گئی ہے “ پھر متقین کے اعمال مالیہ اور اعمال بدنیہ بیان فرمائے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ متقین، جو ان صفات سے متصف ہیں، وہی مومن ہیں۔
Top